فسطائی سوچ کسے کہتے ہے ؟ __ سکندر بلوچ

1374

فسطائیت یا فسطائی فلسفہ کیسے جڑ پکڑتا ہے ،کہتے ہیں کہ فسطائیت انتہا پسندانہ،تنگ نظر، متعصب، عدم روادا ری پر مبنی انداز فکر یا رجحان ہے،جس کی بنیادی خاصیت ہی جمہوریت اور شخصی آزادی کی مخالفت ہے ،یہ رجحان عوام کو ایک قائد کے گرد مجتمع و متحد ہونے کا درس دیتا ہے پارٹی تنظیم یا تحریک سے جوڑے ارکان کو یہ قائد کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتا ہے فسطائی نظریات اور اصولوں کے لئے دلیلیں گاڑنے کے باوجود نظریہ دلیلوں اور اصولوں سے عملََا مبرا ثابت ہوتے ہیں یہ باقاعدہ اپنا منشور پیش کرنے کا حامی نہیں ہوتے عمل اور تجربے پرزور دیتے ہوئے مبہم اور غیرواضح متضاد خیالات و نظریات کو جمع کرکے ایک کرشماتی شخصیت کی جھلک پیش کرنے کی کوشش کرتے۔
مثلاً جیسے ہمارے ہاں کچھ لوگ کبھی انقلاب تو کبھی قومی ریاست جیسے خیالات کبھی جمہوریت ون مین ون ووٹ تو کبھی ون نیشن ون لیڈر جیسے متضاد خیالات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں انکے اصول بنیادی نہیں بلکہ مختلف ذرائع سے لیے جاتے ہیں جو وقت و حالات اورمفادات کے مطابق ہوتے ہیں یہ عملا پرستش اور تقدس کے درجہ پر زور دیتے ہیں یہ شخصیت کی مرضی کو سب سے بالا تر اس کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں ۔
فسطائی فلسفہ ہمیشہ ہر حالت میں کنٹرول چاہتی ہے وہ اشتراک عمل کا سخت مخالف ہوتا ہے یہ عوامی قوت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اسکو تابع کرنے کا حامی ہوتا ہے فسطائی آزادی مساوات بھائی چارے باہمی احترام کی جگہ ڈسپلن نام نہاد وقتی اصولوں اور قربان ہونے کا زیادہ پرچار کرتے ہیں فسطائی بالکل سیدھی طرح سے دو طبقوں میں لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں اطاعت پسند طابعین محنت کرنے و قربان ہونے والے اور ان پر چند ایک حکمرانی کرنے والے فسطائیوں کے نزدیک قائد ہی اہمیت کا عامل ہوتا ہے اسکو سب میں برتر پوزیشن حاصل ہونا چاہیے کیونکہ وہی فرد واحد سب کے خواہشات کا ترجمان ہوتا ہے ،اسکے الفاظ قانون کا درجہ رکھتے ہیں قومی اتحاد کا مظہر بھی وہی ایک شخص ہوتا ہے سب کا فرض ہوتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے اسکی پیروی کریں جیسا کہ ہمارے ہاں ایک نعرہ گونجا کہ ایک لیڈر باقی سب پیروکار وغیرہ فسطائی یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ سیاست میں کامیابی کی شرط اول یہ ہے کہ قیادت فرد واحد کے پاس ہو وہ اس حد تک خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ہر کسی کی معقولیت پرشک کرتے ہیں۔
فسطائیت میں بطور عقیدہ عقلیت و معقولیت سے نفرت کیا جاتا ہے کیونکہ تنقید،دلیل،تحقیق،نکتہ چینی، عقل،ذہانت سے زیادہ خواہشات و جذبات پر زور دیا جاتا ہے جذبات میں شدت بھی اسلئے پیدا کیا جاتا ہے تاکہ آنکھیں بند کرکے فرمانبرداری کرایا جاسکے وہ اس کے شدید مخالف ہوتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی مسئلے پر معقولیت سے غور کیا جائے یا عقل انسانی سے رہنمائی لی جائے انکے کسی بھی عمل یا حکم پر شک و شبہ کرنا انتہائی گمراہی تصور کیا جاتا ہے وہ اپنے مخالفین کے بارے میں ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں شکوک و شبہات پیدا کرکے انکے خلاف نفرت کو ہوا دینے کی کو شش کرتے ہیں
کم و بیش آج یہ رجحان ہمیں صاف طور پر قومی تحریک میں نظر آرہا ہے ہم سب کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہیے ،کئی ایسا تو نہیں کہ جانے انجانے میں ہم فسطائی فلسفے کے پیروکار بن بیٹھے ہیں۔