بی ایس او نے 50 سال سے ظلم کیخلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے

148

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او کی 50ویں یومِ تاسیس کے حوالے سے شال،خضدار، خاران،سوراب، زہری، قلات، آواران،جھاؤ،تمپ،تربت،کراچی اور ہوشاب سمیت دیگر زونوں میں پروگرامز کا انعقاد کیاگیا۔

رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے جتنے بھی تحریکیں گزریں ہیں ان میں اسٹوڈنٹ تنظیموں نے بہت بڑی کردار ادا کی ہے اسی طرح بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک کی پوری تاریخ میں ساٹھ کی دہائی کو ایک اہم مقام حاصل ہے اسی دوران بلوچ طلباء نے بلوچستان کے کونے کونے سے حصول تعلیم کی غرض کے ساتھ اپنی قوم کو محکومی،غلامی اور محرومی کا احساس اور شعور دلا کر حقوق کے حصول کیلئے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا اسی دن سے لے کر آج تک بی ایس او کی ترقی پسندانہ سوچ،نظریہ اور سامراج دشمن جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔بی ایس او نے اس 50 سال کے دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے لیکن اس کے باوجود سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہو کر بلوچ طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام اور بلوچ وطن میں ہر ظلم و زیادتی اور ریاست کے جابرانہ نظام سے رہائی دلانے کیلئے ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا ہے اور بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں بی ایس او کا اہم کردار رہا ہے۔یہ بلوچ نوجوان تعلیم یافتہ طبقے کا وہ پلیٹ فارم ہے جس نے اپنے قیام سے لے کر آج تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں سیاسی ورکرز اور رہنماء پیدا کیے۔انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ بلوچ خواتین کی سیاسی تحریک میں منظم طور پر شمولیت کا اعزاز بھی بی ایس او کو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کے ریاست اور پارلیمانی گروپوں نے بی ایس او کو ہر طرح سے تھوڑ نے اور ختم کرنے کی کوشش کی، مگر بی ایس او ، وہ بی ایس او کی نظریاتی اور پختہ لیڈر شپ صلاحیتوں کے مالک دوست ہی ہیں جنہوں نے بی ایس او کو سیاسی پارٹیوں کے چنگل سے نکال کر ایک آزاد سیاسی تنظیم کی حیثیت دوبارا بحال کیا۔ نہ صرف پاکستان پرست پارٹیوں بلکہ کچھ دوست نما لوگوں نے بھی بی ایس او کو منتشر کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی، مگر رضاء جان اور زاہد جان جیسی قیادت نے ان تمام سازشوں کو ناکام بنا کر یہ پیغام دیا کہ بی ایس او کو کوئی بھی کسی بھی دور میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس میں ان کو کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کی کریک ڈاؤن، مارو پھینکو پالیسی کی وجہ سے تنظیم کی کئی رہنماؤں کی شہادت اور مرکزی چیئرمین زاہد،زاکر مجید،ثناء اللہ بلوچ،شبیر بلوچ،حسام بلوچ اور نصیر بلوچ سمیت کئی رہنماؤں کی ماورائے قانون عدالت گرفتاریاں بی ایس او کی حقیقی جدوجہد کا ثبوت ہے۔بلوچستان کے موجودہ گھمبیر سیاسی صورت حال میں سنجیدہ باشعور اور پختہ سوچ رکھنے والے عوام اور سیاسی کارکنان وقت و حالت کی نزاکت کو بخوبی سمجھے اور اپنی جدوجہد کو مزید تیز کریں۔بی ایس او آزاد بلوچ قوم کی سیاسی نظریاتی شناخت ہے یہ کسی کی ذاتی میراث نہیں ہے یہ ہزاروں شہداء کی عظیم قربانیوں کا تسلسل ہے بلوچستان کے ان شہداء کے مشن کی تکمیل صرف متحدہ اور متفقہ جدوجہد میں ہے۔