قمبر خان مینگل کی ایک اور شیطانی چال – کمالان بلوچ

2058

کمالان بلوچ

کچھ دنوں پہلے پاکستانی فوج نے شور پارود کے 25 رہائشیوں کو کوئٹہ سے قلات آتے ہوئے گرفتار کیا تھا ان افراد کو میر قمبر خان مینگل نے انکے لاپتہ ہونے والے پیاروں کی بازیابی کا جھانسا دیکر کوئٹہ بھیجا تھا انکے گرفتاری کے کیا مضمرات و مقاصد ہو سکتے ہیں.

اس بارے میں ہم ذیل میں لکھیں گے لیکن پہلے قمبر خان کے بارے میں قارئین کو جاننا ضروری ہے کہ قمبر خان کون ہے…..؟

قمبر خان مینگل شہید لونگ خان کا بیٹا ہے. ہاں…! شہید میر لونگ خان جس نے بلوچ سر زمین کی بقاء کیلئے اپنی جان کا نزرانہ پیش کیا جس کی قربانی کو ہر زی شعور بلوچ قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے. شہید لونگ خان کی قربانی کی بدولت بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی آزادی کیلئے متحرک بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے شہید لونگ خان کے بیٹے میر قمبر خان مینگل کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا. لیکن اس کے بر عکس میر قمبر خان مینگل نے اپنے ذاتی مفاد اور قبائلی جرائم پر پردہ پوشی ڈالنے کیلئے دشمن ریاست کے سائے تلے پناہ لے لیا. اور بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف میدان ہموار کرنے بدلے ریاست کی طرف سے اسے مختلف مراہات کے ساتھ ساتھ اپنے جرائم کو وسعت دینے کی کُھلی چُھوٹ دی گئی. ان جرائم میں اغواہ برائے تاوان، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، مظلوم بلوچوں کے زمینوں پر ناجائز قبضہ، آزادی پسند بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کا اغواہ کرنا شامل تھا.

بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے میر قمبر خان مینگل کے جرائم کو بھانپ کر اسے کئی مرتبہ ذاتی طور پر تنبیہ کیا کہ وہ اپنے ان کرتوتوں سے باز آجائیں لیکن میر قمبر خان نے اس کے بر عکس نہ صرف بلوچ عوام کے لوٹ مار میں تیزی لایا بلکہ بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے خلاف دشمن ریاستی افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے ساتھ ملکر ایک مسلح محاز تشکیل دیا. اور اس جماعت کو “یا الٰہی خیر” کا نام دیکر سادہ لوح بلوچ عوام کو ورغلانے کیلئے مذہب کا نام استعمال کر کے بلوچ آزادی پسندوں کو کافر اور منکر کا لقب دیکر بلوچ عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی.

ان حالات میں مسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں کا اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہو چکا تھا جس کی وجہ سے تمام آزادی پسند تنظیموں نے آپس کے اختلافات کو بُھول کر ایک مشترکہ محاز تشکیل دیکر میر قمبر خان کے ڈیتھ اسکواڈ “یا الٰہی خیر” کے خلاف کمر بستہ ہو گئے. اور پے درپے کئی تابڑ تھوڑ حملے کئے گئے. ان حملوں سے حواس باختہ ہوکر میر قمبر خان نے عام بلوچ عوام پر ظلم کا بازار گرم کیا اور کئی عام بلوچوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کر کے ان کے ذمینوں پر قبضہ جمایا. جن میں ایک 80 سالہ بزرگ محمد اعظم شامل تھا جو پارود میں ذمینداری اور دکانداری کر کے اپنا گھر چلاتا تھا قمبر خان کے ظلم سے تنگ آکر اسنے جھالاوان کی طرف نقل مکانی کیا بلوچ عوام پر اپنا رُعب و دبدبہ جمانے کیلئے قمبر خان نے محمد اعظم کو شہید کرکے اس کے ذمینوں پر قبضہ کیا.

قمبر خان مینگل کے جرائم کی ایک تفصیلی رپورٹ کچھ مہینوں پہلے بلوچ نیشنل موومنٹ کے اشاعتی ادارے سنگر نے بھی شایع کی تھی. اور ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں وائرل ہوئی تھی جس میں ایک بوڑھی بلوچ عورت اپنے گدان پر قمبر خان کے آدمیوں کے حملے اور بمباری کے نشانات دکھا کر قمبر خان کے ظلم اور اپنی بے بسی کی رونا رورہی تھی.

شور پارود کے سادہ لوح عوام گزشتہ کئی سالوں سے میر قمبر خان کے شیطانی چالوں کے زیر عتاب ہے جنھیں قمبر خان نے کئی دفعہ پیسہ و مراہات کا لالچ دیکر اور مذہب کا استعمال کرکے بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے خلاف اُکسانے کی کوشش کی تاکہ عوام کو استعمال کرکے اپنے جنگی اور دوسرے جرائم کو وسعت دینے کیلئے ذمین ہموار کر سکے لیکن اسکے یہ چال کبھی بارآور ثابت نہ ہو سکیں. کیونکہ بلوچ عوام کو یہ اچھی طرح علم تھا کہ اپنوں(بلوچ قوم) کے خلاف لڑائی گھاٹے کا سودا ہے.

اپنے مختلف چالوں میں ناکامی کے بعد قمبر خان مینگل نے ایک اور چال چلتے ہوئے شور پارود کے رہائشیوں کو انکے پیاروں کی بازیابی کا جھانسا دیکر انھیں کوئٹہ بھجوایا. (جن میں 4 سالوں سے لاپتہ میر ہزار خان ساسولی اور مٹھا خان ساسولی کے خاندان کے افراد بھی شامل تھے) شور پارود سے 25 افراد قمبر خان مینگل کے توسط سے کوئٹہ تو گئے لیکن واپس اپنے گھروں کو نہیں پہنچے. کیونکہ انھیں پاکستانی فورسز نے واپس آتے ہوئے گرفتار کیا.

ان افراد کے گرفتاری کے کیا وجوہات ہوسکتے ہیں اگر ہم اس کا بغور جاہزہ لیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ قمبر خان شور پارود کے لوگوں پر اپنا رعب و دبدبہ تسلط کرنا چاہتے ہیں یا ان افراد کو اپنے کارندے ثابت کرکے اپنے لئے مزید مراہات بٹورنا چاہتے ہیں.

بلوچ تحریک کے اس موڑ پر جب ہر طرف بلوچ سرمچاروں کے پاکستانی فورسز پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد حواس باختہ ریاست کو اپنی فورسز کا مورال بلند کرنے کیلئے اگر 25 افراد سرینڈر پراپیگنڈہ کیلئے مل جائے تو یہ ریاست کے لئے سونے پہ سہاگہ کے برابر ہونگے.

اور اب مختلف حلقوں کی طرف سے یہی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ریاست ان افراد کو علیحدگی پسند مسلح تنظیموں سے جوڑ کر میڈیا کے سامنے لائے گی اور اپنے سرینڈر پروپیگنڈہ کو دوام بخشنے کی کوشش کریگی.