ستمبرمیں45افراد قتل جبکہ فورسز کے ہاتھوں 116افراد اغواء – بی ایچ آر او

159

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنایزیشن نے بلوچستان میں ہونے والی تشدد کے واقعات کی ماہانہ رپورٹ میڈیا کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ ستمبر کے مہینے کی کاروائیوں کے دوران45 افراد قتل جبکہ فورسز کے ہاتھوں 116افراد جبری طور پر اغواء کیے گئے۔جبکہ اس مہینے اغواء ہونے والے 26افراد بازیاب بھی ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ان کاروائیوں کے دوران27 افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ آپریشن کے دوران متعدد گھر مسمار کردئیے گئے۔ قتل ہونے والے45 افراد میں سے 11 فورسز کی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جبکہ 16افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں جن میں سے بیشتر پہلے سے ہی فورسز کی تحویل میں موجود تھے۔ جبکہ14افراد نامعلوم افراد اور ذاتی دشمنیوں کی وجوہات کی بناء پر قتل ہوگئے۔ اس کے علاوہ اس مہینے4 ناقابلِ شناخت لاشیں برآمد ہوگئیں۔ ان ناقابلِ شناخت لاشوں میں سے دو پنجگور کے علاقے سے برآمد ہوگئے، جو کہ بہت برے حالت میں تھے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے خدشہ ظاہر کیاکہ یہ لاشیں لاپتہ بلوچوں کی ہوں گی، کیوں کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں سے اکثر بیشتر لاپتہ بلوچوں کی لاشیں برآمد ہوتی رہی ہیں۔ اسی مہینے کی 20 تاریخ کو آواران کے علاقے سیاہ گزی سے ایک نوجوان ہمراز ولد اسحاق کو فورسز نے اغواء کرلیا، اگلے روز اس کی لاش برآمد ہوگئی، اس کے علاوہ کولواہ کے علاقے ڈنڈار سے 20ستمبر کو فورسز نے آپریشن کے دوران متعدد لوگوں کو گرفتار کیا، ان میں سے سبزل ولد سردو کی لاش29ستمبر کو ڈنڈار سے برآمد ہو گئی۔ اس طرح کی کاروائیاں گزشتہ کئی سالوں سے بلا تعطل جاری ہیں، جن کے منفی اثرات نے بلوچ سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

بی ایچ آر او کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں فورسز کی کاروائیاں نہ میڈیا کا توجہ حاصل کررہی ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کے پاکستانی کارکن ان کاروائیوں کے خلاف کچھ بولتے ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔ شورش زدہ بلوچستان میں لوگ نہ صرف آئے روز کی فوجی کاروائیوں اور گمشدگیوں سے پریشان ہیں، بلکہ طلباء کے لئے تعلیم اور لوگوں کے معاشی ذرائع روز بہ روز محدود ہورہے ہیں۔ فورسز کی مقامی ملیشیائیں عام لوگوں کے مال مویشیاں لوٹ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مہینے بھی گزشتہ مہینوں کی طرح گمشدگیوں کے واقعات سینکڑوں میں ہیں۔ فورسز کی عام لوگوں کو اغواء اور نامعلوم قید خانوں میں بند کرنے کی پالیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، کیوں کہ مغویوں کو نہ ان کے خاندان والوں سے ملنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی مقد مہ قائم کرکے انہیں باقاعدہ عدالتوں میں اپنی دفاع کا حق فراہم کیا جاتا ہے۔ سو ل انتظامیہ بھی فورسز کے سامنے بے بس ہے۔ اگر پاکستان کے مرکزی حکومت اور بلوچستان کے صوبائی حکومت ان معاملات پر بدستور خاموش رہے تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مستقبل قریب میں مزید لوگ فورسز کے ہاتھوں اغواء و قتل ہوں گے۔