تربت: ادبی سرکل “اوتاک”کے زیراہتمام تبصرہ و تنقیدی نشست کا انعقاد

345

ادبی سرکل،اوتاک، کے زیر اہتمام بلوچی افسانوں پر مشتمل کتابوں پر تبصرہ و تنقیدی نشست کا انعقاد کیا گیا۔کسی ادبی سرکل کی جانب سے بیک وقت پہلی بار ایک درن سے زیادہ افسانہ نگاروں کی کتابوں پر تبصرے پیش کئے گئے۔

تفصیلات کے مطابق بلوچی ادبی سرکل اوتاک،، کے زیر اہتمام تربت میں گزشتہ روز اوتاک کے آفس میں ایک گرینڈ ادبی نشست منعقد کی گئی جس میں قلم کاروں اور ادیبوں کی کثیر تعداد نے شر کت کی۔

اس ادبی نشست کے مہمان خاص بلوچی زبان کے معروف طنز نگار پھُلان عُمر تھے جبکہ پروگرام کی صدارت پروفیسر صادق صباء نے کی اور انتظامات کے فرائض بھی اُنہی نے انجام دیئے۔اس ادبی نشست میں پہلی بار ایک درجن سے زیادہ بلوچی زبان کے مختلف افسانہ نگاروں کی کتابوں پر تبصرہ اور تنقیدی گفتگو کیاگیا ۔

پروگرام میں ڈاکٹر حنیف شریف کے افسانوں پر مشتمل کتاب تیراں دستک،،پر حنیف واھگ نے جبکہ ڈاکٹر ناگمان کے افسانوں پر مشتمل کتاب دارءِ اپس،،پر شریف شہسوار،سید ہاشمی کے افسانوں پر مشتمل کتاب میر گِند،،پر عباس حسن،منیر احمد بادینی کے کتابکلکشتگ،،پر جمال پیر محمد،مراد ساحر کے کتاب گرمیں ساھگ،،پر وحید چاکر،صبا دشتایری کے افسانوی کتاب ترانگانی بُنزِہ،،پر پیر جان نعیم،غنی پرواز کے افسانوں پر مشتمل کتابمُرتگیں مردءِ پچیں چم،،پر رازق راج،منیر مومن کے افسانوں پر مشتمل کتاب پر الطاف بلوچ،ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی کے کتابمہرءِ تیاب،،پر صادق صباء،صبا دشتیاری کے افسانوں پر مشتمل کتابآسءُ آسیب،،پر سلیم ہمرازنے اپنے اپنے تبصریے اور تنقیدی مقالے پیش کیئے۔جبکہ خاتون قلم کاروں میں بانُل بلوچ کا تبصرہ غنی پرواز کے افسانہ سرشپءِ مَرگ،،فیروزہ داد رحیم کا تبصرہ اے آر داد کا افسانہ دریگے پچ بیت،، اور صبیحہ سمار کا تبصرہ ڈاکٹر حنیف شریف کے افسانوں پر مشتمل کتاب تیراں دسک،،پر تھا وہ بھی سرکل کے سامنے لائے گئے۔

جبکہ بالاچ حمید نے اے آر داد کے افسانوں پر مشتمل کتابدریا دیما پیداک اِنت،،پر اپنا تبصرہ بھیجا اور وہ خود سرکل میں نہیں پہنچ سکے۔یہ ادبی نشست اپنی نوعیت کا واحد نشست تھا جس میں بلوچی زبان کے تیرہ کتابوں پر مختلف قلم کاروں نے تبصرے اور تنقیدی مقالے پیش کیئے۔اس ادبی نشست میں قدیر لقمان ،عابد علیم اور دیگر نے خصوصی طور پر شرکت کی۔مجلس کے آخر میں مہمان خاص پھلان عمر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اوتاک،،کے زیر اہتمام یہ پہلا اور تاریخی ادبی نشست ہے جس میں اتنی کتابوں پر مختلف قلم کاروں اور ادیبوں نے اپنی آراء پیش کی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ ادبی روایت ہر ادبی ادارہ اور اکیڈمی کو برقرار رکھنا رہنا چاہیئے۔اور دیگربڑے وژنری ادبی اداروں کو اوتاک،،کا مکمل تعاون کرنا چاہیئے کیونکہ اس جیسی روایت سے فن اور ادب حقیقی رنگ میں ڈھل جائیگااور ترقی کریگا۔