اسلام آباد: بلوچ وپشتون طلبہ پرتشدد،متعدد زخمی،60 سے زائد گرفتار

220

اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی میں گزشتہ کئی روز سے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج پر بیٹھے بلوچ و پشتون طلبا پر انتظامیہ اور پولیس نے دھاوا بول دیا. پیر کی صبح احتجاجی طلبا پر پولیس نے پرتشدد کارروائی کا آغاز کر دیا جس میں کئی طلبا شدید زخمی ہو گئے جب کہ 60 سے زائد طلبا کو گرفتار کر لیا گیا

ادھر طلبا کا موقف ہے کہ ان کا احتجاج پرامن تھا اور پولیس نے بلاوجہ لاٹھی چارج کر کے بڑی تعداد میں طلبا کو زخمی بھی کیا ہے۔

طلبا کی گرفتاری کے خلاف ان کے ساتھیوں نے اسلام آباد کے پریس کلب کے باہر مظاہرہ بھی کیا ہے۔ مظاہرے میں شریک طلبا نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور وہ پولیس کے اقدامات کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔

پلے کارڈز پر پولیس اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف نعرے درج تھے۔

حالیہ کشیدگی کی وجہ اس سال مئی میں دو لسانی طلبا تنظیموں کی درمیان تصادم تھا جس کے بعد تقریباً 40 طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا تھا۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ کی ضد اور ناانصافانہ رویے کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا. بلوچ اسٹوڈنٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ طلبہ کی آپس میں لڑائی کی بنیاد پر جن بلوچ طلبا کو معطل کیا گیا ہے وہ سراسر ناانصافی ہے کیونکہ بلوچ اسٹوڈنٹس کے چیئرمین نے تمام انتظامیہ کو اس لڑائی کے متعلق پہلے سے ہی آگاہ کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر انتظامیہ نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو مسئلہ بڑھنے کی صورت میں انتظامیہ خود ذمہ دار ہوگی

اس احتجاجی مظاہرے میں طلبا نے انتظامیہ کے سامنے 13 مطالبات رکھے جن میں یونیورسٹی سے نکالے جانے والے طلبا کی جامعہ میں واپسی، طلبا کے لیے سفری سہولیات کے نظام کو بہتر کیا جانا، پیرامیڈکس سمیت دیگر غیر رجسٹرڈ شعبہ جات کی رجسٹریشن اور فیسوں میں ہونے والے اضافے کو واپس لیے جانے کے مطالبات شامل ہیں۔

ایک طالب علم نے نام نہ بتانے کی شرط پرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘پیر کی صبح کئی ٹرکوں میں پولیس اور انسداد دہشت گردی کی فورس کے اہلکار یونیورسٹی آئے اور احتجاج کرنے والے طلبا کو زبردستی گرفتار کر کے ساتھ لے گئے۔ پولیس نے طالبات کے ساتھ بھی زیادتی کی اور انھیں مارا۔

عینی شاہد طالب علم نے یونیورسٹی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک کے اس بہترین تعلیمی ادارے کی زبوں حالی پر توجہ نہیں دے رہی اور طلبہ اگر شکایت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔