آزادی محض خواب نہیں : تحریر : مرید بلوچ

522

اس تحریر کو شروع کرنے سے پہلے یہ واضح کر دوں کہ میں کوئی فلسفی نہیں، زندگی کے دشوار راستوں پر اس قدر تجربہ بھی نہیں رکھتا، زندگی میں موجود بہت سے احساسات سے بھی اب تک لا علم ہوں یعنی اس بات کا اعتراف تحریر سے پہلے کرنا چاہتا ہوں کہ بلکل اس قابل نہیں کہ میں اس محدود علم کے ساتھ آپ دوست جو مجھ سے بہت بہتر شعور و علم رکھتے ہونگے کو کچھ سمجھا یا بتلا سکوں۔ اس تحریر کا مقصد صرف اپنے آپ کو مطمئین کرنا ہے کہ ہاں میں جو کر سکتا ہوں، کر رہا ہوں اور مجھ جیسے طالب علم کی پہلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ جو کچھ جہاں سے ملے بٹور کر پھیلا دے۔ اگر اس میں کوئی ایسی بات ہو جو میرے یا میرے دوست، خاندان یا قوم کے لئے فائدہ مند ہو، بحیثیت قومی تحریک کے ایک رکن میرا فرض بنتا ہے کہ اس کاروان کی کوتاہیوں، کمزوریوں اور غلطیوں کی نشاندہی اس مقصد سے کروں کہ اس کوتاہی، اس کمزوری کو ہٹایا جا سکے اور اس میں اپنا حصہ جہاں تک ہو ملا سکوں۔ بہت سی کمزوریوں کوتاہیوں میں سے ایک جو محسوس کر سکتا ہوں، وہ عوام کی شعوری طور پر ذہنی نشونمائی ہے۔

اگر آج سے کچھ سال پہلے اور آج کا موازنہ کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ قومی تحریک کے حمایتوں میں کمی محسوس کی جا سکتی ہے، جس کے بہت سی وجوہات کی نشاندہی گزشتہ کچھ سالہ تنقیدی عمل میں کی جا چکی ہے۔ مگرآج میں ہرگز اس طرف جانا نہیں چاہونگا بلکہ اس تحریر کے مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سلسلے کی کڑی میں ایک چھوٹا سا حصہ ملانا چاہونگا۔ جو سلسلہ بی ایس او،بی این ایم سمیت بہت سے تنظیموں نے بے شمار قربانیاں دے کرجاری رکھا تھا۔ جن مقاصدکے لئے دوستوں نے سرکلوں، تحریروں، کتابچوں ، سیمینارز اورجلسوں اور بہت سے طریقہ کاروں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی شعور کو بیدار کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میں خود بھی انہیں سرکلز، کتابچوں اور سیمیناروں کے ہی بدولت اس قابل ہوں کہ ہمت کر کے کچھ صفحے سیاہ کر دیتا ہوں۔

آج کی یہ تحریر ایک لفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہے، جس سے ہم آپ یا ہر ذی شعور واقف ہے، جسے کامیابی کہتے ہیں۔ ہر انسان اس لفظ کو اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتا ہے یعنی کامیاب ہونا چاہتا ہے اور ہر ایک نے کامیابی کی اپنی اپنی ایک تعریف بنائی ہوئی ہے اور اس لفظ کے حوالے ہر ایک کا نظریہ مختلف ہے۔ کسی کے لئے زر و زمین کا ہونا ہی کامیابی ہے، تو کسی کیلئے شہرت عزت ہی کامیابی کے زمرے میں آتے ہیں، تو کسی نے اس دنیا سے الگ ہی دنیا میں کامیابی کو کامیابی قرار دیا ہے۔ بس ہر ایک کا الگ نظریہ، الگ سوچنے کا زاویہ۔ ایک بات جو سب میں یکساں ہے وہ ہے خواب، اس کامیابی کے حصول کا خواب، مگر اس خواب کو کم ہی لوگ حقیقت میں تبدیل ہوتا دیکھتے ہیں یعنی اس کامیابی کو کم ہی خوش نصیب حاصل کر پاتے ہیں۔ کسی کو بدقسمت حالات مات دے دیتے ہیں، تو کوئی خود اپنا دشمن بنا ہوا ہوتا ہے۔

بحیثیت بلوچ فرزند اس غلامی کی حالت میں ہر بلوچ ایک خواب ضرور دیکھتا ہے، روشن مستقبل کا خواب، مادر وطن کی آزادی کا خواب، مگر اس آزادی کواپنے بےشعوری اور کم علمی کی وجہ سے بے شمار قربانیاں دینے کے باوجود بہت سے لوگ صرف خواب ہی مانتے ہیں یعنی انکا یقین ایمان کے آخری درجے پر ہوتا ہے۔ آج میں جو باتیں یہاں تحریرکرنے جا رہا ہوں، بے شک وہ کتابی باتیں ہی ہونگی مگر ایک ایسے شخص کی جس نے ۰۲ سال اپنی زندگی کے صرف کامیاب لوگوں کی زندگیوں پر تحقیق کی اور وہ بیس سالوں کی محنت ایک کتاب کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک خواب کو حقیقت بنانے کے اصول بتائےکہ کس طرح ایک شخص اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کر کے اپنی منزل کو آسان بنا دیتا ہے۔

مصنف نپولین ہیل نے اپنی کتاب ” تھنک اینڈ گرو ریچ” میں نہایت ہی خوبصورت اور جامع انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کوئی فرد کس طرح کچھ اصولوں پر کاربند ہو کر اپنی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کتاب کے تیرہ موضوعات مصنف نے بیان کی ہیں، جن کی اہمیت اس قدر ہے کہ شاہد کوئی بھی شخص ان اصولون کو نظر انداز کر کے اپنے اس منزل کے حصول کواپنے لئے ہی مشکل بنا دیتا ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں موجود ہر فرد پر لازم ہے کہ اس تحریک کو کامیابی کے منازل تک پہنچانے کے لئے، قومی آجوئی حاصل کرنے کے لئے اپنی ذاتی زندگی کے رویوں میں تبدیلی لائے، معاشرے میں تبدیلی لانے سے پہلے انفرادی تبدیلی لانا لازم ہے۔

خواہش :

پہلا اصول ہے خواہش، اس منزل کے حصول کی شدت سے خواہش ہونی چاہئے،اگر کسی بھی چیز کو حاصل کرنا چاہتے تو سب سے پہلے اس کی خواہش میں شدت پیدا کرو۔ وہ خواہش اتنی شدید ہو کہ آپکو چین سے بیٹھنے نا دے آپکے راتوں کی نیند حرام کر دے اور جاگتے سوتے، کھاتے، کھیلتے، پڑھتے ہر عمل میں وہ خواہش آپکے حواس پر سوار رہے۔ یوں تو آزادی کی خواہش ہر انسان کرتا ہے اور ہر بلوچ خود کو آزادی پسند کہتا اور سمجھتا ہے مگر مات اس شدت میں کھا جاتا ہے، جو اسکے اس آزادی کی خواہش میں نہیں ہوتی۔ آج سے ہی ہمیں آپکو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی ہم آزادی چاہتے ہیں؟ کیا ہماری خواہش ہے کہ مادر وطن بلوچستان آزاد ہو جائے اور کیا اس خواہش میں اتنی شدت ہے؟ اگر ہاں تو آپ خود کو آزادی پسند کہہ سکتے ہیں۔

یقین:

دوسرا اصول ہے یقین یعنی اس بات کا ایمان کی حد تک یقین کہ اس منزل کو حاصل کر سکوں گا۔ اس یقین کو کبھی کمزور ہونے نا دیں چاہے آپ کے سامنے کوئی بھی رکاوٹ کیوں نا ہو۔ آج سے اس یقین کو ایمان کا حصہ بنا لیں کہ دنیا کی کوئی طاقت بلوچ کو اپنے وطن کی آزادی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی ہے۔ اس یقین میں ذرہ برابر بھی شک پیدا ہونے نا دیں کہ بلوچ قومی تحریک اس ریاست کو گھٹنوں کے بل نہیں جھکا سکتی ہے۔

خود کلامی:

خود کلامی یعنی اپنے آپکو ہدایت دینا کہ ہاں میں حاصل کر کے رہونگا، اپنے آپ سے ہر وقت باتیں کرتے رہنا یہ دہراتے رہنا کہ ہاں میں کر سکوں گا، ہم کر سکیں گے اور ہم کریں اپنے وطن کو ضرور آزاد کرائینگے۔اس بات کو اتنی بار دہرائیں کہ آپکا شعور اس بات پر عادی ہو جائے اور سمجھ لے کہ آزادی کا حصول ہی آپکی اولین ضرورت ہے۔ تب آپکا دماغ ہر وقت اسی حوالے سے کام کرنا شروع کر دیگا اور جتنے بھی آئیڈیاز آپکے دماغ میں آنا شروع کر دینگے وہ محض دشمن کو شکست دینے اور اپنے آزادی کے حصول کے طریقہ کار پر مشتمل ہونگے۔

معلومات میں اضافہ کرنا:

دنیا میں کسی بھی چیز کو حاصل کرنا ہو تو سب سے پہلے اس کے متعلق معلومات اکھٹی کرو، جتنی معلومات آپ اکٹھی کرینگے وہ منزل آپکے اتنے ہی قریب سے قریب تر ہوتی رہے گی، آزادی جیسی انمول شئے حاصل کرنے کے لئے بھی بلوچ کو اتنی معلومات کی ضرورت ہوگی۔ وہ معلومات بلوچ کے اپنے طاقت، ریاست کی طاقت، اپنی کمزور ریاست کی کمزوری، اپنے اور ریاست کے مواقع اور خطرات کے علاوہ دنیا کے باقی تحریکوں کی کامیابی و ناکامی کے اسباب، اپنے رخ کے صحیح تعین کے لئے اپنے اداروں اور لیڈروں کے متعلق ہر وقت معلومات اکھٹا کر نا بھی ہر بلوچ فرد کے لئے نہایت ضروری ہے۔

تخیل(Imagination)

یعنی وہ چیز آپکے دماغ میں مکمل طور پر واضح تصور رکھتی ہو۔ اس دنیا میں تصور کے بغیر شاید ہی کوئی چیز ایجاد ہوئی ہو۔ گاڈی سے لیکر کمپیوٹر تک قلم سے بندوق تک ہر چیز تخلیق سے پہلے کسی کے تصور میں ضرور آیا ہوگا، جسکے بعد ہی وہ چیز وجود میں آ گئی ہو گی۔ تو آزادی کے بارے میں سوچیں،آزادی کیا ہے۔ ہمیں کیوں آزادی چاہئے۔ آزادی کے بعد ہماری آپکی حالت میں کیا تبدیلی آئیگی وغیرہ وغیرہ۔

منصوبہ بندی:

کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کرنا کہ کن کن مراحل سے گزر کر آپ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ بے شک آزادی جیسے انمول شئے کو حاصل کرنا اس قدر آساں نہیں مگر ہر فرد اپنے اپنے اہلیت کے مطابق مادر وطن کو آزاد کرنے کے لئے مختلف اہداف بنائے اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے مختلف منصوبے تیار کر کے ان پر نا صرف عمل پیرا ہو بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے عمل بھی کرے اور اس ہدف اور طے کردہ وقت کو جانچے۔

ارادہ:

کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لئے پہلا جو کام ہوتا ہے وہ ہے ارادہ، یعنی آپکا کام تب تک شروع نہیں ہوتا جب تک آپ نے پختہ ارادہ نا کیا ہو اور پختہ ارادہ تب ہی معلوم ہوگا جب آپ اپنے منزل کی جانب پہلا قدم اٹھائینگے۔ تو آج سے انتظار کرنا چھوڑ دیں، جیسے بھی جس طرح بھی قومی آزادی کی تحریک میں کردار ادا کر سکتے ہیں، وہ کردار ادا کریں بے شک کوئی غیبی طاقت آسمان سے اتر کر بلوچ کو آزادی نہیں دے سکتا۔ دوسروں پر انحصار کرنا چھوڑ دیں اور خود عملاً پہلا قدم اٹھا کر خود کو یہ یقین دلائیں کے ہاں آپ مادر وطن کی آزادی چاہتے ہیں۔

مستقل مزاجی:

اپنے منزل کی جانب مستقل مزاجی سے بڑھتے چلے جانا، جتنی رکاوٹ آ جائے، اپنے مستقل مزاجی پر آنچ نا آنے دیں، کسی بھی رکاوٹ کو کسی بھی مجبوری کو خود پر حاوی نا ہونے دیں اور مسلسل منزل کی جانب بڑھتے چلے جائیں۔ پھر منزل آپکے قدم چوم لے گی۔ دنیا کے جتنے بھی تحریکوں کا مثال لے لیں انکے مشکلات بلوچ قوم کے مشکلات سے کہیں زیادہ ہونگے۔ حال ہی میں کرد تحریک جو مختلف سامراج کا ظلم برداشت کر کے اب تقریبا کامیابی کے منازل کو پہنچ چکی ہے۔ جو اس بات کو ثابت کر دیتی ہے کہ کسی بھی تحریک میں ہر ایک فرد مرد و عورت کا کردار اور کردار میں مستقل مزاجی ہی کامیابی کا ضامن ہو سکتی ہے۔

حوصلہ افزائی:

کوئی ایسی چیز ایسی سوچ جو ہر وقت آپکو حوصلہ دے، منزل تک پہنچنے کے لئے مستقل آپکی حوصلہ افزائی کرتی رہے۔ آپکے جوش، جذبے اور خواہش کو ماند نا پڑنے دے۔ وہ آپکے ہم خیال قومی تحریک میں موجود نظریاتی سنگت ہو سکتے ہیں، جو ہر وقت آپکو حوصلہ دے سکتے ہیں متحرک کر سکتے ہیں کہ ہاں یہ منزل ہماری ہی ہوگی بس کرتے چلو بڑھتے چلو۔ ایسے سنگتوں کا چناو آپکے لئے بہترین ہوگا جو آپ نے اپنے ذمہ لئے ہوئے محاذ کے کام میں بہترین مہارت رکھتے ہوں۔

جنسی جذبے کا استعمال:

اپنے جزبات کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرنا، اپنے جذبات کا رخ اپنے منزل کے حصول کی طرف موڈ دینا۔ جس طرح کے جذبات انسان کے جنسی خواہش کے حصول کے لئے ہوتے ہیں، ان جذبات کے آگ کو اس طاقت، اس توانائی کو اپنے مقصد آزادی کی طرف موڈ دینا آپکے کامیابی کو آسان بنا دیتا ہے

لاشعور کا استمال:

اپنے لاشعور کو اپنے منزل کے حصول میں مشغول کر دینا، ہر وقت قومی آزادی کے بارے میں سوچنا، سنگتوں کے درمیان مسائل پر گفت و شنید کرنا، اپنے شہیدوں کو یاد رکھنا اور خود سے ہر وقت یہی وعدہ کرنا کہ شہدا کا مشن کامیاب ضرور ہوگا۔ اس طرح ہر وقت، ہر عمل میں منزل کے حصول کے بارے میں سوچنے سے آپکا لا شعور بھی آپکے منزل کے حصول میں مشغول ہو جاتا ہے۔

دماغ کا استعمال:

یہاں دماغ کے استعمال سے مراد دماغ کواپنے کنٹرول میں رکھنا، اسے اچھے سوچوں کا ریسیور بنا دینا۔ دماغ میں ہر قسم کی سوچیں آتی رہتی ہیں، مگر ایک انقلابی اپنے ذہنی ارتکاز صرف ان سوچوں پر رکھتا ہے، جو اسکے مقصد کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔

چھٹی حس:

چھٹی حس کا اچھی طرح استعمال کرنا اسے اس قدر تیز کرنا کہ آنے والے واقعات کا ادراک کر سکے ۔ایسی باتیں کا علم ہو جائے جو بظاہر وہاں موجود نا ہوں ۔ آج کل ایسی تیکنک آ چکی ہیں، جن کے مشق سے آپ اپنے چھٹی حس کو بہت بہتر بناسکتے ہیں اور اسکو استعمال میں لا کر اپنے منزل کی بہت سے رکاوٹوں میں آسانی پیدا کر سکتے ہیں۔

اور آخری خوبی ہے کہ خوف پر قابو پا لینا
غریبی کا خوف
لوگوں کے تنقید کا خوف
بیماری کا خوف
کسی سے بچھڑنے یا الگ ہونے کا خوف
بڑھاپے کا خوف اور
موت کا خوف

آزادی جیسے انمول شئے حاصل کرنے کے لئے قومی تحریک کے ہر کارکن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان میں سے کسی بھی خوف کو اپنی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا ہے اور مسلسل جہد کرتے رہنا ہے اپنے آپ پر بھروسہ رکھنا ہے اور خو کو انحصاری سے بچا کر رکھنا ہے۔ کسی پر اندھا اعتماد نہیں کرنا بس اپنے آپ پر بھروسا رکھنا ہے اور یہ سوچ اپنے ذہن میں بٹھا کر رکھنا ہے کہ یہ تحریک ہماری تحریک ہے اور اسکا فائدہ یا نقصان بھی میرا ہے۔ مادر وطن کی حفاظت ہر بلوچ کی زمہ داری ہے جس دن ہر بلوچ اس بات کو سمجھ لے گا، مان لیں اسی دن سے مادر وطن کی آزادی کے دن شروع ہونگے۔

1 COMMENT

Comments are closed.