پاکستان سے ٹیررستان کا سفر : تحریر: حفصہ نصیر بلوچ

618

یہ کہانی ہندوستان کی تقسیم سے شروع ہوتی ہے، جناح وکیل سے لیڈر بن جاتے ہیں اور یوں برصغیر کے مسلمانوں کی طاقت کو تقسیم کرکے دنیا میں راتوں رات ایک ملک وجود میں آتا ہے۔ جس کو پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی طور تاریخی پس مظر سے محروم یہ نومولود ریاست ، اپنے قیام کو جواز بخشنے کیلئے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے ،عربوں کی تاریخ پر فخر کرتے ہیں۔ خود پر حملہ آور ہونے والے بیرونی جارح غوری اور غزنوی کو اپنا لیڈر بتاتے ہیں۔ اپنے حدوں میں پیدا ہونے رنجیت سنگھ اور بگھت سنگھ کو سِکھ ہونے کی وجہ سے اپنانے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ انکے اسلامی ڈیزائن میں برابر نہیں پڑتے۔ بنگالی مسلمان جو اس ریاست کی تخلیق میں پیش پیش ہوتے ہیں، مگر پاکستان بننے کہ تیس سال بعد ہی دنیا میں یہ پہلی بار ہوتا ہے کہ اکثریت اقلیت سے تنگ آکر بھاگ جاتی ہے اور یوں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی صورت میں نمودار ہو تا ہے۔

بنگالیوں کی نسل کشی کی گونج گزشتہ دنوں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی بنگلہ دیش کے موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایک بار پھر ان پرانے زخموں کو کریدا جو ابھی تک بھرے نہیں تھے۔

اسی اجلاس میں ہندوستان نے پاکستان کو بھرے ایوان میں ٹیررستان یعنی دہشتگردستان کہہ کر مخاطب کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ایک دہشت گرد ملک سے ہمیں انسانی حقوق اور جموریت کا درس نہیں سننا جس کے اپنے ملک میں دہشت گرد آرام سے گھومتے ہیں۔

حافظ سعید جسے امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک عالمی دہشت گرد قرار دے چکے ہیں پاکستان میں فوجی مقتدرہ کا قریبی ہے اور پاکستان میں یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں لیکچر دیتے پھرتا ہے۔ جبکہ اسی کانفرنس میں افغانستان کی جانب سے بھی اسی طرح کے ملے جلے الزامات کا پاکستان کو سامنا رہا۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان امن عالم کے لیے ایک خطرہ ہے جہاں مذہبی شدت پسندی قومی نصاب میں شامل ہو، جہاں مذہبی اقلیتوں پر ذمین تنگ کردی گئی ہے اور ایک ایسا ملک جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہوں اور دہشت گردوں سے ریاست کے رابطے ہوں وہ ٹیررستان نہیں تو اور کیا ہے۔

اسامہ کی کاکول ملٹری اکیڈمی کے نزدیک برآمد ہونا، ملا اختر کا پاکستانی پاسپورٹ پر دنیا میں سفر کرنا دنیا کے لیے خود با عث تشویش ہے۔

جس ملک کے ساتھ بیک وقت تین ہمسائے ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوں۔ ایران سے اعتماد کھو چکا ہو، انڈیا ازلی دشمن ہو افغانستان اپنے ملک کی تباہی کا سبب پاکستان کو قرار دے چکا ہو، بنگلہ دیش جو پاکستان کے بطن سے نکلا ہو وہ پاکستان پر بھروسہ نہیں کرتا عالمی طاقتیں پہلے سے پاکستان کو ڈبل ایجنٹ قرار دے کر شک یقین میں تبدیل کرچکے ہوں۔ ایسا ملک حقیقی معنوں میں ٹیررستان ہی کہلایا جاسسکتا ہے۔

شمالی کوریا کو ایٹمی فارمولے بیچنے کا الزام بھی پاکستان کے سر جاتا ہے جس سے ایٹمی جنگ کے خطرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح یمن تک میں اسکے فوجی معصوموں کے قتل میں سعودی عرب کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

جبکہ علاقائی سطح پر بلوچوں، سندھیوں اور پشتونوں کو بزور طاقت دبانے کا سلسلہ اور بلوچوں کی نسل کشی کے بازگشت اب دنیا بھر کہ ایوانوں میں آہستہ آہستہ دھیمی آواز میں سنائی دے رہی ہے۔

گزشتہ دنوں جنیوا میں فری بلوچستان کے حوالے سے پوسٹر کے معاملے پر پاکستان کا احتجاج سوئس سفیر کی دوبار طلبی اور احتجاجاً سینٹ میں سوئز لینڈ کے سفیر کو پاکستان بدر کیے جانے تک کی خبریں آتی رہیں۔

بلوچوں کے خلاف گزشتہ ستر سالوں سے ریاستی جبر، بلوچ آبادیوں پر بمباری، مارو اور پھینکو کی پالیسی، بلوچ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی، طلبا رہنماؤں اور بلوچ لیڈروں کی تسلسل کے ساتھ لاشیں مسخ کرنے کے بعد ویرانوں میں پھینکے جانے تک بلوچ خواتین کے اغوا پر جب بلوچ احتجاج کرتے ہیں تو یہ ریاست آپے سے باہر ہوجاتی ہے۔

اس ٹیررستان نے 1948 سے 1958 اور انیس سو ساٹھ سے اکہتر اور پھر اکہتر سے تادم تحریر بلوچوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں اور اب چین کے ساتھ ملکر بلوچ ساحل پر قابض ہونے کے نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ جہاں آبادیوں کی آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرکے انکے آبائی ذمینوں پر قابض ہونے کی کوششوں میں روز بروز شدت پیدا ہورہی ہے۔

بمبئی حملوں سے لے کر برطانیہ میں دھماکوں، افغانستان میں نیٹو فورسز پر حملے، انڈین امریکہ ایمبیسیز پر حملوں میں پاکستان اور آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے شواہد ایک ملک کے خلاف کافی ثبوت ہیں۔

پاکستان جہاں مذہب کو فرنچائز کے طور پر چلایا جاتا ہے، جس سے اختلاف ہو مذہب کا استعمال کسی نجی چینل پر پابندی لگانی ہو، تب مذہب کا استعمال جبکہ الیکشن اور ووٹوں کے لیے بھی مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انہیں مذہبی دہشت گردوں کااستعمال کرکے دوسرے ملکوں میں بھجا جاتا ہے۔

جبکہ پاکستانی فوج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کمرشل آرمی ہے کرایے پر دستیاب ہے جو جتنا پیسہ دیگا انکے لیے اتنا ہی کام کرئے گا۔

لیکن سب باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ دنیا اس ٹیررستان سے اب تنگ آچکی ہے، اب اسکے وجود کو دنیا کی طاقتیں برداشت نہیں کرپا رہیں۔ اسے امن عالم کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں جبکہ اس بات کا احساس اس ریاست کو بھی آہستہ آہستہ ہورہا ہے۔

اس لیے گزشتہ دنوں بنگلہ دیش افغانستان اور ہندوستان ایک ہی زبان میں اقوام متحدہ کے بڑے فورم پر دنیا کے سامنے اس ریاست کو بے نقاب کرتے ہیں۔ امریکی صدر کا پاکستان کے حوالے سے جارحانہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس ٹیررستان کے خلاف عالمی طاقتیں ایک نئے محاز کو کھول کر اس ریاست کو ایک بڑا درس دینے والے ہیں اور یہ سب کچھ عنقریب نظر آنے والا ہے دنیا کے نقشے پر بہت سی نئی ریاستوں کی پیشگوئی پہلے سے ہی کئی تھنک ٹینکس کرچکے ہیں جبکہ عراقی کردستان اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ صدی قوموں کی آزادی کی صدی ہے ایک پرامن دنیا کی صدی اور ایک پر امن دنیا اپنے اندر ایک ٹیررستان کا ہر گز متحمل نہیں ہوسکتا۔ جب تک اس زمین پر کوئی ٹیررستان موجود ہے، امنِ عالم کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔۔۔