شبیر رخشانی

لسبیلہ میں کرکٹ کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے, اس میں کیسے کیسے اتار چڑھاؤ آتے ہیں, اسے ایک ہی اسٹوری میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ البتہ کہا جاتا ہے کہ لسبیلہ میں کرکٹ کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہوا تھا۔ جب خان غلام محمد لاسی نے آل انڈیا کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی تھی۔ غلام محمد لاسی کا تعلق لسبیلہ سے بتایا جاتا ہے۔ لسبیلہ میں کرکٹ کا کھیل وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پاتا گیا۔ اور ساتھ ساتھ تنزلی کا شکار بھی ہوا۔ کئی باصلاحیت کرکٹر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے میں کامیاب ہوئے، انہیں موقع ملا اور وہ مواقع سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے۔

لسبیلہ میں کرکٹ جنون کی حد تک کھیلی جاتی ہے۔ لسبیلہ میں کرکٹ کے فروغ کے لیے کراچی کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کرکٹ سے لگاؤ انہیں حب سے کراچی جانے پر مجبور کرتا رہا۔ کراچی کے کلبوں میں کھیلنے کا موقع بھی ملا۔ انہیں کرکٹ کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ تاحال قسمت کی دیوی حب کے کھلاڑیوں پر مہربان نہیں اور کوئی بھی کھلاڑی ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمائندگی نہ کر سکا۔

ینگ لاسی کرکٹ کلب لسبیلہ کی سطح پر پہلے کلب کے طور پر سامنے آیا جس کی بنیاد عبدالطیف لاسی نے سن 1966 میں رکھی۔ لسبیلہ میں گراؤنڈ کی کمی اور ماحول کی عدم دستیابی نے اسی کلب کو کراچی میں اپنا کھیل جاری رکھنے پر مجبور کیا۔ لسبیلہ میں کرکٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر پرنس علی احمد کو حب میں کرکٹ اسٹیڈیم کا خیال 22 سال قبل آیا۔ جس کی باقاعدہ داغ بیل ڈال دی گئی۔ جسے مکمل ہونے میں کئی سال لگے۔ آمائشی سال ختم ہوتے ہی حب میں کرکٹ کی رونقیں بحال ہونی شروع ہو گئیں۔ یوں لسبیلہ کی فضاؤں میں کرکٹ نے اپنے رنگ بھرنے شروع کر دیے۔ لسبیلہ کرکٹ ایسوسی ایشن نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا شروع کیا۔ جام غلام قادر اسٹیڈیم کو پی سی بی نے باقاعدہ اون کر لیا۔ پورے لسبیلہ میں یہ واحد گراؤنڈ تھا جہاں ٹرف پچز کا وجود عمل میں لایا گیا۔ جہاں باقاعدگی سے میچز منعقد کیے جانے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسٹیڈیم کی حالت بھی مخدوش ہوتی چلی گئی۔ جس کا اثر گراؤنڈ کی پچز اور سبزہ زار پر زیادہ ہوا۔ حب میں کرکٹ ایک پوزیشن پر آ کھڑئی ہوئی تھی، پھر پیچھے چلی گئی ۔جہاں میچز ہوتے تھے، اب پرندے محو گفتگو رہتے ہیں اور خاموشی سی چھائی رہتی ہے۔


بلوچستان کی سطح پر اس وقت دو ریجن کرکٹ کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ایک کوئٹہ ریجن اور دوسرا ڈیرہ مراد جمالی ریجن۔ ظفر جدگال کا تعلق ضلع لسبیلہ سے ہے جو اس وقت ڈیرہ مراد جمالی ریجن کرکٹ کی سربراہی کرتے ہیں۔ جب ان کے سامنے حب کرکٹ گراؤنڈ کی زبوں حالی کا ذکر چھیڑا تو کہنے لگے، ’’گراؤنڈ کی تعمیر کے لیے سوئی سدرن گیس کمپنی نے ٹینڈر کیے تھے۔ ٹھیکہ دار کو رقوم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے یہ کام رک گیا۔ ہم نے کئی بار متعلقہ کمپنی کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ مگر ان کی طرف سے خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوا‘‘۔


جام غلام قادر اسٹیڈیم کی موجودہ حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک لمبی بحث ہو گی ۔ حب میں کرکٹ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے کالی گھٹاؤں کے خلاف حب کی سطح پر رجسٹرڈ 32 کلبوں نے تاحال کوئی مزاحمت نہیں کی اور اسے حالات کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا۔ تمام کلب جنہیں گراؤنڈ میں میچز کھیلنے کا موقع ملتا تھا، اب سیمنٹ کی پچز پر کرکٹ کھیلتے ہیں۔ جس سے ان کا کھیل متاثر ہو رہا ہے اور وہ بلوچستان سے باہر کی ٹیموں کے مقابلے میں اپنا وہ کھیل پیش نہیں کر پا رہے ہیں جو ان کا خاصا ہوا کرتا تھا۔

بلوچستان میں کئی ایسے کھلاڑی سامنے آئے جنہوں نے قومی سطح پر ریجنز اور کلبوں کی نمائندگی کی اور اپنے کھیل کے جوہر دکھائے۔ ان میں حب سے تعلق رکھنے والے حمید بڑول کا نام لیا جاتا ہے۔ حمید بڑول کو فرسٹ کلاس میچز کھیلنے کا موقع ملا تاہم وہ انٹرنیشنل میچوں میں پاکستانی کی نمائندگی نہ کر سکے۔ 1999 کو انہیں پہلی مرتبہ قلات ڈویژن کی سطح پر گریڈ ٹو میں کھیلنے کا موقع ملا۔ اور انہوں نے اپنے پہلے میچ کی دوسری اننگ میں 132 ناٹ آؤٹ رنز اسکور کیے۔ اور مزید کامیابیاں سمیٹتا گیا۔

جب بلوچستان کو پہلی بار فرسٹ کلاس کا اسٹیٹس دیا گیا تو اس ٹیم میں حمید بڑول کا نام بھی شامل تھا۔ مزید انہیں پاکستانی ٹیم میں نمائندگی کا موقع نہیں ملا۔ ذریعہ معاش کھیل کے آگے آڑے آ گیا۔ پی سی بی کی طرف سے بطور گراؤنڈ مین مقرر ہوئے ۔ کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔ کوچنگ سے محروم رہے پر نوجوانوں کی کوچنگ کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ اس وقت نوجوان کھلاڑیوں کو ٹریننگ دیتے ہیں۔ کرکٹ کے سفری اختتام کے حوالے سے وہ کہتے ہیں، ’’ کرکٹ ایک فل ٹائم جاب ہے۔ اس کے لیے آپ کو پورا دن دینا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں کرکٹ کو ڈیپارٹمنٹل مدد ملتی ہی نہیں، نہ اکیڈمیاں موجود ہیں اور نہ ہی وہ ماحول دستیاب آتا ہے جو ایک کھلاڑی کی ضرورت ہوتا ہے‘‘۔

حب شہر میں کرکٹ کے لیے بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ تاہم کھلاڑیوں کو سپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے اکثر کھلاڑی سفر کے وسط میں کھیل کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔ حب میں اس وقت سیکڑوں کمپنیاں اور پرائیوٹ ادارے کام کر رہے ہیں۔ جن میں ڈی جی خان سمینٹ، اٹک سمینٹ، گیٹرون، گڈانی شپ بریکنگ یارڈ، لسبیلہ چیمبر آف کامرس، کینڈی لینڈ، سالٹ ریفائنری کمپنی اس کے علاوہ بڑی بڑی کمپنیاں حب شہر سے اپنی معیشت کو استحکام دینے میں مصروفِ عمل ہیں، پر یہاں کے کرکٹ کلبوں کی مالی معاونت نہیں کرتے۔ حب شہر کا واحد کرکٹ کلب اسپیشل کرکٹ کلب ہے جس کے اخراجات کی ذمہ داری ایک مقامی اسکول اسپیشل اسکول حب نے اپنے ذمے لی ہوئی ہے۔

ظفر جدگال کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’ہم نے فیکٹری مالکان سے بارہا بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں اور اس ڈوبتی ناؤ کو بچائیں۔ لیکن انہوں نے ہمارے مطالبات پر سنی ان سنی کر دی‘‘۔ دوسری جانب وہ حب کے کھلاڑیوں کی قومی سطح پر نمائندگی نہ ملنے کی وجہ ان کی ذہنی سطح کو بھی قرار دیتے ہیں۔ تاہم وہ نئے نوجوان کھلاڑیوں محمد شعیب، اضغر خان، برکت لطیف، غلام محمد، اسامہ رزاق سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ نوجوان ملکی سطح پر نمائندگی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

گو کہ بلوچستان میں اس وقت ڈپارٹمنل کرکٹ کا فقدان ہے۔ اکیڈمیاں وجود نہیں رکھتیں۔ ماحول کھلاڑیوں کے موافق نہیں۔ انہیں سپورٹ نہیں ملتی۔ تاہم وہ ہمت نہیں ہارتے۔ امیر احمد چھٹہ بھی اس فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے معذوری کو اپنے عزم کے آگے آنے نہیں دیا اور پاکستان ڈس ایبل کرکٹ ٹیم میں پاکستان کی نمائندگی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے سن 2012 میں اپنا پہلا بین الاقوامی کرکٹ میچ انگلینڈ کے خلاف کھیلا۔ ون ڈے سیریز کے اختتامی میچ میں انہیں بہترین کارکردگی پیش کرنے پر مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ اب تک 23 انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

میں نے ان سے سوال کیا کہ انہوں نے حب شہر کے اس ماحول میں معذوری کے باوجود اپنا کھیل کیسے آگے بڑھایا تو انہوں نے کہا، ’’حب شہر میں چوں کہ ڈس ایبل کرکٹ کلب تھا ہی نہیں، تو میں نے یہاں کے ایک کلب پاٹھڑہ کی جانب سے میچز کھیلے۔ دوستوں نے سپورٹ کیا۔ اور میں پاکستان کرکٹ ٹیم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہا‘‘۔ بلوچستان سے امیر احمد چٹھہ کے علاوہ حب ہی سے عبدالرحمان اور عبداللہ پاکستانی ڈس ایبل کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈس ایبل کرکٹ کا آغاز پاکستان سے ہوا تھا۔ تاہم انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم بہت آگے ہے اور 2018 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے وہ فیورٹ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی عدم توجہی کو گردانتے ہیں۔


خوش آئند بات یہ ہے کہ پی سی بی میں ایک بلوچستان ے نئے ممبر کا اضافہ ہوا ہے۔ پی سی بی کی گورننگ باڑی میں پہلی بار کسی بلوچ کو ممبرشپ دی گئی ہے۔ یہ کیچ سے تعلق رکھنے والے مراد اسماعیل ہیں۔ نوجوان یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ مراد اسماعیل تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں کرکٹ کے فروغ میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔