جدوجہد اور قومی مفاد – چیئرمین خلیل بلوچ

236

(بلوچستان نیشنل موومنٹ کے تربیتی پروگراموں کے سلسلے میں ایک لیکچر پروگرام کا انعقاد کیاگیاجس میں پارٹی چیئرمین جناب خلیل بلوچ نے قومی مفاد،بلوچ جغرافیہ کو ہتھیانے کے لئے بلوچ نسل کشی میں چین کے پاکستان کے معاونت کاری ،عالمی طاقتوں کی کمزورخطوں بالخصوص محکوم اقوام کے بارے پروکسی اور کٹھ پتلیوں کے ذریعے مفادات کا حصول اور نتیجے کے طورپر ان خطوں کی تباہی ،بلوچ قومی تحریک آزادی پراظہار خیال کیا ،اس لیکچر کوبلوچستان نیشنل موومنٹ کے انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے مرتب اورترجمہ کیا ہے، جسے بشکریہ سنگر پبلیکیشنز قارئین کے دلچسپی اور معلومات کے لئے شائع کیا جارہا ہے ۔ )

دوستو!
آج کے لیکچرز پروگرام میں موجودپارٹی کے کارکناں مبارک باد کے مستحق ہیں جو ان کٹھن حالات میں بھی اپنی تعلیم و تربیت سے کنارہ کش نہیں ہوئے ہیں بلکہ ایک تسلسل کے ساتھ ایسی پروگرامز کا انعقاد کررہے ہیں جو پارٹی میں تربیت بالخصوص کیڈرزسازی کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔جن موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے ان کا فہم حاصل کرنا ہر سیاسی کارکن کے لئے بہت ضروری ہے ۔سب سے پہلے ہم قومی مفاد پر نظر ڈالتے ہیں ۔

قومی مفاد:۔

بلوچ قوم آج جس صورت حال سے دوچار ہے یہ وہ قیمت ہے جسے ہم اپنی قومی آزادی کے لئے اداکررہے ہیں ،حالات اس سے زیادہ مشکل اور کھٹن ثابت ہوسکتے ہیں ،دشمن ہمیں کچلنے کے لئے مظالم کی نئی داستانیں رقم کرسکتا ہے۔ یہ حالات اپنی قومی تقدیر کامالک بننے کے لئے ہماری قومی شعوری فیصلہ ہے لہٰذا ہمیں سختیوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناکر ان کے سامنے سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے ۔ہماری قومی منزل اورسمت متعین ہیں اورمنزل سے پہلے پڑاؤ اور سمت سے ذرابھی ہٹ جانا ہمیں قومی تقدیرکی تعمیر سے اتنی دورلے جائے گاکہ اس کاتصورہی بھیانک ہے اور بلوچ قوم اس کا متحمل نہیں ہوسکتاہے۔ یہ بات طے ہے کہ کسی بھی صورت حال اور مشکل ترین حالات میں ہمارے لئے بلوچ قومی مفاد سب پر مقدم ہے ۔ یہی دستورِدنیا ہے کہ قومیں اپنی قومی مفادات کی حصول کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں، قوم پرست ہوں یاسوشلسٹ ،بنیادپرست ہوںیاامپریلسٹ ،جمہوریت کے دعویدارہوں یا آمریت کے پیروکار۔پوری عالمی برداری یا موجودہ طاقت کے بڑے مراکزاپنی قومی مفادات کی حصول کے لئے پالیسیاں مرتب کرتے ہیں، براہ راست جنگیں لڑتے ہیں،پراکسیوں سے کام چلاتے ہیں ،اتحاد بناتے ،توڑتے ہیں ،ان کی حصول کے لئے عملی اقدامات کرتے ہیں۔مجھے آج کی دنیامیں کوئی ایسی انقلابی تحریک یا ملک نظرنہیں آتاکہ اس کا مطمع نظرانسان ،انسانیت کی فلاح و برابری یا قوموں کی برابری یاقومی محکومی یا غلامی کاخاتمہ ہو۔ دنیا کا کوئی تجزیہ کار اور مفکر اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ آج کے دنیا میں طاقت کے کسی بھی مرکز کا کنٹرول کسی انقلابی قوت کے ہاتھ میں ہے ۔ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی وعسکری طاقت ہے مگر اس کا نومنتخب صدر سیاسی ،انقلابی کے بجائے ایک سرمایہ کار ہے۔ نظریات کچھ بھی ہوں ان میں قدرمشترک یہی ہے کہ سب کے اپنے قومی مفادات اور انہیں حاصل کرنے کے لئے ان کے اپنے شرائط،اپنی ترجیحات ہیں۔ یہی مفادات اور شرائط نہ صرف خطوں،ملکوں اور قوموں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عالمی طاقتوں اور عالمی اتحادوں کو بھی متاثر کرتے ہیں اور اسی سے ملکوں کا نقشہ بنتے ،بدلتے ہیں، اتحاد ٹوٹ جاتے ہیں ،ان کی تشکیل نو ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ دراصل خطوں،عالمی طاقتوں اور قابضین کے مفادات کے گرد گھومتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی سیاست اور انسانی فطرت کا مطالعہ اورتجزیے سے یہی ثابت ہوتاہے کہ تمام خطوں کے ممالک اپنی قومی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے معاشی ،عسکری اورنظریاتی مخالفین کوزیرکرنے کے لئے اپنے اتحادیوں کی سیاسی ،معاشی و عسکری طاقت میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کائناتی سچائی کے مطابق ہماری جدوجہد کا محوراور مرکزاور قربانیوں کا مقصد بلوچ قومی مفاد ہے بلوچ قومی مفاد سے ذراسی روگردانی قومی رہنمائی کے کسی بھی دعویدارکو اس کے مقام ایسے گرائے گا کہ دوبارہ کبھی اٹھ نہیں پائے گا۔

لیکن قومی مفادات کی حصول کے لئے جونظریے اور طریقہ کاراپنایا جاتا ہے وہ سب سے اہم ہے ،کیونکہ اس کے اثرات اُس قوم اور دنیا کے لئے یاتومثبت ہوتے ہیں یا انتہائی منفی ہوتے ہیں۔ہماری قومی تحریک کا محور قومی مفادہے اوراس کی حصول کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ پاکستان بھی قومی مفادکی بات کرتا ہے ،لیکن ہماری نظریہ اور طریقہ کار وہی ہے جسے انسانیت شرف کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ ہماری نظریے میں نہ صرف ہماری قومی بقاء ،قومی تشخص اورقومی بقاء کا تحفظ پنہاں ہے بلکہ اس کے مثبت اثرات عمومی طورپرخطے اورخصوصی طورپرخطے کے محکوموں اورمظلوموں پریقینامرتب ہوں گے۔ بلوچ انسانی اقدار کی جنگ لڑرہاہے اور بلوچستان انسانیت کے امن کے لئے ایک بہترین مثال اور سبب بن سکتا ہے۔ بلوچ کی آزادی سندھی ،پختون سمیت دیگر مظلوموں کے لئے امکانات پیدا کرے گا ۔ہماری کامیابی سے خطے میں ایک سفر کا آغاز ہوسکتا ہے ،تاریخ میں معروف قوم پرستوں کا حوالہ بھی ملتاہے اورہٹلر بھی نظرآتا ہے جس نے قوم،قومیت اورقومی مفاد کے نام پر انسانیت کو ایک بحران سے دوچارکیا۔ ہماری تحریک ہماری قومی اور فطری حق کے لئے ہے اوردنیا میں اب تک کوئی عالمی قوانین ایسی نہیں سامنے آئی ہے جو ہماری تحریک اورجدوجہد کی نفی کرتا ہو۔لیکن ہمیں کوئی ایسی قانون بھی نظر نہیں آتا ہے کہ جو توسیع پسندی،جارحیت اورملکوں پر قبضے کی حمایت کرے یا اس کی اجازت دے مگرہماری دشمن بڑے ڈھٹائی سے نہ صرف ہم پرقبضہ کرتا ہے بلکہ اپنی قبضہ کو برقراررکھنے کے لئے تمام عالمی قوانین کو ردّی کی طرح اُڑاکربلوچ قومی نسل کُشی میں مصروف ہے ۔

چین سمیت چند اور طاقتوں کی پاکستان سے وابستہ مفادات نے پاکستان جیسے ناکام اور دہشت گرد ریاست کو اس قدر طاقتور بنادیا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے اپنی رفتار کو برقرار رکھ سکے ۔اور گزشتہ چند سال بلوچ تاریخ کے مشکل ترین سال ثابت ہوئے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں بلوچ قومی کامیابیاں بھی نمایاں ہیں ۔ منظم جدوجہدکے طفیل بلوچ قومی سیاست آج عالمی سیاست کا حصہ بننے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ گزشتہ بارہ تیر ہ سالوں سے یہ ہماری سیاسی مباحثوں اورعوامی اجتماعات کا مرکزی موضوع ہے کہ عالمی سیاست اور عالمی مفادات کا ایک لہر اس خطے میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور مفادات کا یہ لہر ہمیں اور ہماری قومی تحریک کو متاثر کرنے کی کوشش کرے گا۔

مجھے یقین ہے بلوچ سیاسی ورکرعلاقائی وعالمی سیاست بلکہ عالمی طاقتوں کی معاشی و عسکری مفادات کے فہم رکھتے ہیں کہ بلوچ سرزمین اپنی جغرافیہ اوروسائل کی وجہ سے عالمی اورخطے کی طاقتوں کے نگاہوں کا مرکز رہاہے اورآج خطے کی تیزی سے بدلتی صورت حال میں بلوچستان ایک مقناطیسی زون بن چکا ہے۔ ہماری جغرافیہ دنیا کے تین اہم خطوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتا ہے ،ہماری سمندر سے دنیا کے تیل کا بڑاحصہ گزرتاہے،ہماری سرزمین بیش قیمت وسائل کے کان کدھان سے بھرپور ہے۔ پوری دنیامیں اب تک دریافت ہونے والے معدنیات میں سے بیشتر یہاں پائے جاتے ہیں ،ہماری انتہائی اہمیت کے حامل ساحل سمندر،گہری بندرگاہوں،تیل و گیس اوردیگر معدنی دولت پر کئی نگاہیں جمی ہیں اوریہ سب قبضہ گیر کے ساتھ ہیں اوربلوچ قوم کی نسل کشی اوراستحصال میں براہ راست شریک کار ہیں ۔

صرف چین ہی نہیں بلکہ ہمیں تاریخ کے اس موڑپر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ تمام چیلنجزکا بنیاد تو قابض ہے لیکن قابض کا کبھی ایک روپ نہیں ہوتا ہے وہ اپنی قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے کئی روپ ، حربے اورکثیرالجہتی حکمت عملیاں استعمال کرتا ہے آج پاکستانی فوج بڑے پیمانے پر بلوچ نسل کشی کررہاہے ،فوج اور نیم فوجی اداروں کو بلوچستان میں انسانی حقوق کے ساتھ کھلواڑ کے لئے مکمل چھوٹ مل چکا ہے ۔ متنوع مقاصد کے لئے مذہبی دہشت گردوں کے محفوظ پناہ گاہیں قائم کی جارہی ہیں ان مقاصدمیں بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنا، بلوچ قومی سیکولر تشخص کو مٹانا ،روایتی مذہبی رواداری کوادھیڑکرسماج کو زہر آلود کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بلیک میل کرنا شامل ہیں ۔ حالیہ تاریخ گواہ ہے مذہبی دہشت گردی کے آڑ میں پاکستان نے عالمی طاقتوں کو بلیک میل کیا ہے،اسی سے اپنے دیوالیہ پن کے شکار معیشت کو سہارا دیا ہے۔

قابض کا ایک روپ نام نہاد قوم پرست ہیں ،ان میں نیشنل پارٹی سرفہرست ہے ،ان میں بی این پی ،مذہبی جماعتیں ہیں ،یہ سبھی قابض کے دست و بازو ہیں ۔ یہ جس قوم کی نمائندگی کا دعویدار ہیں ،اس قوم نے انہیں گزشتہ نام نہاد انتخابات میں مکمل طورپر مسترد کردیا ۔جدید دنیا کے کسی بھی انتخابی اخلاقیات کے مطابق یہ نمائندگی کے حق نہیں رکھتے مگر پاکستان کو انہی کٹھ پتلیوں کی ضرورت ہے وہ انہیں استعمال کررہاہے اور یہ بھی چندے مراعات اور مفادات کے لئے خوب خوب استعمال ہورہے ہیں ،بلوچ نسل کشی میں ان کے ہاتھ قابض کی طرح خون سے رنگے ہوئے ہیں ،بلوچ قوم تمام تر مشکلات کے باوجود دشمن اور حواریوں کا مقابلہ کررہاہے ۔
جیسا کہ میں نے آغاز میں عرض کیا ہے کہ ممالک اپنے قومی مفاد کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اب چین کا مثال لے لیں وہ چین جومسلمان اکثریتی صوبے سنکیانگ میں اسلام پر مکمل پاپندی عائد کرچکا ہے ،مذہبی عناصر کو شدت سے کچل رہا ہے ،وہی چین پاکستان میں عالمی طورپر ڈکلیئر شدت دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کررہا ہے ،کیونکہ چین اس بات پر قائل ہوچکاہے کہ بلوچستان میں اس کے ناجائزمفادات بلوچ قومی تحریک کے کامیابی کی صورت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے ہیں اور اکیلے پاکستان اتنی بڑی تحریک کو مکمل کچلنے پر قادر نہیں تو پوری دنیا کی مخالفت مول لے کر مذہب کے استعمال میں پاکستانی بیانیے کو سپورٹ کررہاہے ،اسی سے اپنے مقاصد کی تکمیل کی کوشش میں ہے ۔

دوستو!پاکستان دنیا کو دکھانے یا اپنے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈہ ضرور کررہاہے کہ تحریک کو کچل دیا گیا ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچ قومی تحریک نے قابض کو نفی سے وضاحت کی پوزیشن پرلاکھڑا کیا ہے۔آج پاکستان وضاحتیں دینے کے لئے مجبورہوچکا ہے۔ اوائل میں پاکستان اس بات کابھی منکر تھا کہ بلوچستان میں کوئی تحریک چل رہاہے بلکہ پاکستان نے تردید کاایک سلسلہ شروع کیا تھا’’ مٹھی بھر عناصر‘‘سے چند ’’ناراض بھائیوں‘‘ جیسے گھڑے گئے اصطلاحات کا مقصد ہمیں نظرانداز کرنا نہیں ہماری قومی تحریک کی اہمیت کو گھٹاکر پیش کرنا تھاکہ یہاں امن ہے یہاں سکون ہے اور یہاں کسی قسم کو کوئی انسرجنسی نہیں ہے یہا ں علیحدگی اور آزاد ی کی کوئی تحریک نہیں ہے۔ آزادی پسند مٹھی بھر عناصر تھے جنہیں کچلا گیا ہے نواز شریف یا پاکستان کے صدر یاکٹھ پتلی وزیر اعلیٰ آج ثنااللہ کی شکل میں ہویاکل مالک کی شکل میں ہواسلم رئیسانی کی شکل میں ہویہ سب اس وضاحت پر معمور ہیں۔اکبرخان تھا ماراگیا ،بالا چ تھا مارا گیا،غلام محمد تھا مارا گیا،لہٰذا امن ہے اُس وقت بھی قومی تحریک کو کچلنے کے لئے ظالمانہ کاروائیاں جاری تھیں اور آج بھی جاری ہیں مگر فرق یہ ہے کہ اُس وقت پاکستان اپنے کاروائیوں کو قبول کرنے کے بجائے مسلسل انکاری تھا مگر آج وہ اقرار کررہا ہے کہ اس کی فوج کاروائی کررہاہے۔ کل پاکستان اس بات کا منکر تھا کہ بلوچستان میں کوئی تحریک چل رہا ہے مگر آج ہماری قومی قوت نے پاکستان کو یہ اعتراف کرنے پر مجبورکردیاہے ۔۔پاکستا ن دنیا کو تسلی دلانے کے لئے جھوٹی وضاحتیں پیش کرنے پر مجبور ہوچکاہے ،لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی وضاحت قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں ناکام ہے ،کوئی ملک بلوچستان میں سرمایہ کاری کے لئے تیا ر نہیں ہے سوائے چین کے ، خطے میں بالادستی کے خواہاں چین کے توسیع پسندانہ عزائم نے انہیں پاکستان کا ساجھے دار بنایا ہے ،چین ہمارے منفردجغرافیہ کوتزویراتی اورتجارتی مقاصدکے لئے استعمال میں لانے کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ لگا چکا ہے،لیکن چین کے عزائم تجارت سے زیادہ عسکری ہیں اس سے قبل بھی چین مختلف استحصالی منصوبوں پر سرمایہ لگا چکا ہے اوربلوچ قومی وسائل کوبے دریغ لوٹ رہاہے لیکن سیندک ، ریکودک وغیرہ سمیت دیگر منصوبے کبھی اتنے زیر بحث نہیں رہے جتنا کہ سی پیک ہورہا ہے (عالمی وعلاقائی سطح پر)گزشتہ دوسالوں سے پاکستان اپنے تمام اندرونی تضادات کو سی پیک سے نتھی کررہاہے ، اپنے ترقی کو سی پیک سے نتھی کررہاہے ،کوئٹہ دھماکے کو سی پیک سے نتھی کررہاہے ،چھوٹے بڑے سیاستدانوں سے لیکر فوجی سربراہاں،اوران کے صدر تک کے بیانات سبھی سی پیک سے جڑے ہوئے ہیں ۔آج پاکستان کی تمام سیاست کامرکز سی پیک بن چکا ہے اورسی پیک کو پاکستان کے سب سے بڑے منصوبے اور ترقی کی سب سے بڑی علامت قرار دے رہے ہیں ۔یہ ہماری سرزمین ،وسائل ،ساحل کی اہمیت کااظہار ہے اوردنیا کو راغب کرنے کا ذریعہ بھی تاکہ دنیا چینی وژن اورسرپرستی میں بلوچستان میں سرمایہ لگائے اوراس سے مزید قوت پاکر پاکستان نہ صرف بلوچ قومی تحریک کو کچل دے بلکہ خطے میں طاقت کے تواز ن کو اپنی حق میں لائے ،یہی چینی اور پاکستانی مقاصدنے آج بلوچ وطن کو ایک فوج چھاؤنی میں تبدیل کردیاہے۔

ان تمام کے بیچ بلوچ قومی تحریک اپنی ارتقائی مراحل طے کررہاہے ۔ قبضے کے بعد سے بلوچ نے چارمزاحمتی تحریکیں چلائی ہیں ،آغاعبدالکریم خان،بابونوروزکی قیادت میں یا ستر کی دہا ئی میں ۔۔۔۔آج ہم اپنے مقام کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج ہماری پوزیشن کیا ہے ،لیکن آج بلوچ قومی تحریک اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ دنیا یہ باور کررہا ہے کہ یہ متنازعہ سرزمین ہے ۔اس کا اظہار چندسال قبل اس وقت ہوا جب برطانیہ نے اعتراف کرکے خفیہ فائلوں کو افشا کیا کہ اِن کی خواہش اور مدد سے پاکستان نے بلوچ سرزمین پر قبضہ جمایا ہے۔امریکی ایوان نمائندگان میں بلوچ قومی مسئلے پر ایک شنوائی ہوئی ،امریکی سینیٹ میں بلوچ قومی تحریک کا گونج سنائی دے رہا ہے ،لیکن بین الاقوامی سیاست نہایت پیچیدہ ،گنجلک اور اس طرح عالمی قوتوں کے مفادات کے گرد گھومتی ہے کہ ہمیں خوش فہمی کے بجائے اپنے قومی قوت ،اپنے صفوں کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خطے میں عالمی قوتوں کے مفادات کا گزشتہ کئی عشروں سے جاری یہ لہر ،موجودہ دور میں اپنی عروج پرہے ،اورمفادات کی جاری جنگ میں بلوچ قومی تحریک آزادی کو متاثر کرنے کی ضرور کوشش کرے گا۔

عالمی طاقتوں کی مفادات ہمیں کس طورسے متاثر کریں گے؟

اس امرمیں کوئی شک نہیں کہ خطے میں بلوچستان کی جغرافیہ ،تزویراتی اہمیت مرکزی اہمیت کا حامل ہے ،مفادات کی جنگ میں مرکزی نقطہ ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ اسی مرکزی نقطے کے درجہ کی وجہ سے نقطہ اشتعال بھی بن سکتا ہے ،بلاشبہ چین کی تزویراتی سرمایہ کاری ہماری جاری نسل کشی کے عمل میں تیزی لارہا ہے ،سی پیک کی تکمیل ہماری بے دریغ استحصال ،ڈیموگرافک تبدیلی اوربلآخرتباہی پر منتج ہوگالیکن بہت سے عالمی طاقتیں اسے اپنے خلاف تصورکرتے ہیں ۔عالمی طاقتیں کبھی اپنے مفادات سے دستبردارنہیں ہوتے ہیں ،اوراس کے ساتھ جنگی صنعتوں کا اہم رو ل ہے جسے مارکیٹ اور کھپت کی ضرورت ہے جو صرف نت نئے تضادات کے ابھرنے اوران میں ٹکراؤسے پھلتے پھولتے ہیں ،دنیا کو موجودہ صورت حال تک پہنچاننے میں ان کا ایک کردار ہے۔چند مثالوں میں دنیا کے مفادات کی جنگ میں ہماری لئے بڑی سبق پنہاں ہے۔

دنیا کی سیاست کاایک لازمی جزویہ بھی ہے کہ انہیں مختلف خطوں میں پراکسی کی ضرورت ہے جیسا کہ ہم عرب اسپرنگ کی بات کرتے ہیں ایک مختصرمدت میں عرب دنیا میں انقلابات کاایک سلسلہ چل پڑتا ہے یکے بعد دیگرے بیشتر عرب ممالک میں انقلاب آتے ہیں لیکن ان انقلابات کا ثمر آج وہاں تباہی کی صور ت میں اس لئے برآمد ہورہاہے کیونکہ یہ مقامی نہیں ان کی باگ ڈورکہیں اور سے چلائی جارہی تھی ،ان کے ماسٹرمائنڈدنیا کے کسی اور خطے میں تھے ،مثال کے طورپر اگر لیبیاکاانقلاب مقامی ہوتاتوایک ہی رات میں فرانس چالیس ہزارٹن اسلحہ کیونکر پھینکتا۔۔۔کس بنیاد پر۔۔۔۔قذافی رجیم کی تنزلی اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ unicollکوتیل و گیس تلاش کرنے کا لائسنس جاری کرتاہے ،تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے سی آئی اے وہاں داخل ہوجاتا ہے اورقذافی کو کمزور کرتا ہے؟ ۔۔۔۔عرب اسپرنگ عالمی طاقتوں کا ایک دیرینہ پروگرام تھا جسے وہ بتدریج آگے بڑھارہے تھے اور عین وقت پر اسے لانچ کیا گیاجب پرانے سیٹ اپ ناکارہ ہوچکے تھے ،طاقتوں کے مفادات کی رکھوالی میں ناکام ہورہے تھے اور یہ خدشہ بھی نمایاں تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دقیانوسی بادشاہات سے اکتائے عرب عوام جمہوریت کے جانب انقلابی سفر شروع نہ کردیں لہٰذا عرب ممالک میں انقلاب کھمبیوں کی طرح اُگنے لگے تاکہ اپنے اپنے کٹھ پتلیوں کے ذریعے اپنے مفادات کوحاصل کرسکیں۔

لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کا یہ طریقہ کار انتہائی ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے ،جیسا کہ شام میں اسد رجیم کے خلاف جن قوتوں کو طاقتور بنایاجاتا ہے تو وہاں داعش مضبوط ہوجاتا ہے ۔۔۔عراق میں صدام رجیم کا خاتمہ کیاجاتا ہے تو وہاں القاعدہ اور داعش نمودار ہوتے ہیں۔۔یا ماضی قریب میں سوویت یونین کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مجاہدین کو سپورٹ کیاجاتا ہے توطالبانائزیشن کا عفریت پیدا ہوتا ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مصر،لیبیا،عراق ،شام یا افغانستا ن یہ تمام ملکوں میں بنیادپرستوں اورمذہبی جنونیوں کاایسی ابھارآیا ہے کہ اگر یہ تمام ایک دوسرے کے ساتھ انضمام کی جانب چلے گئے تویک قطبی سے دویا کثیرقطبی طاقت کی تبدیل ہونے والی دنیا میں ایک نئی طاقت کااضافہ عین ممکن ہے اوردنیاکے لئے اُس تباہی کاتصور ہی لرزہ خیز ہے ،آج دنیا یونی پولر سے بائی پولربلکہ ملٹی پولربن رہا ہے اسی طرح اگر طالبان،القاعدہ،آئی ایس ایس آپس میں انضمام کریں تو بڑی طاقت شاید محفوظ رہیں مگر وہ چھوٹی قومیتوں اور چھوٹے ممالک کے تباہی کا سبب بن جائیں گے، جیساکہ بوکوحرام اور دوسری جہادی تنظیمیں آج دنیا کے لئے ایک مکمل تھریٹ بن چکے ہیں۔

دنیا بالخصوص مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کی موجودہ صورت عالمی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ انہوں نے مسائل کے اصل حل کے بجائے ہمیشہ پراکسی اور کٹھ پتلیوں سے کام چلانے کی پالیسیاں جاری رکھیں کہ آج یہ خطے خون میں نہلائے جارہے ہیں ،اگر ان خطوں میں قومی وحدتوں ،قومی جغرافیوں اور قومی شناخت کے بنیاد پر تنازعات کا حل ڈھونڈا جاتا تو یہ صورت کبھی پیدا نہیں ہوتا،لیکن ایسا نہیں ہوا ،بلوچ قوم بالخصوص ہمارے نوجوانوں کو اس باب میں سوچنے کی ضرورت ہے ،اب قدرتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی طاقت ان پالیسیوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کاجواب اس تجزیے میں موجودہ ہے ۔

عالمی طاقتیں اورکٹھ پتلیاں

ساتھی کارکنو!
آج دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ میں اتھل پتھل اور خونریزی پرسیاسی کارکن ہر وقت سوچتے ہیں کہ ان خطوں کے حالات اتنے دگر گوں کیسے بن گئے ہیں بظاہر بہت پیچیدہ نظر آتے ہیں مگر ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان حالات کا ذمہ دار مغرب کی نیشنلزم گریز پالیسیوں کا فصل ہے جو دہشت گردی کی صورت میں ان خطوں کے محکوم عوام کاٹ رہے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے عالمی طاقتوں کو کٹھ پتلیوں اور نیشنلزم گریز پالیسیوں کا ضرورت کیونکر پڑتا ہے ،دنیا کو کٹھ پتلیوں کی ضرورت ہرجگہ اور ہمیشہ رہتا ہے تاکہ وہ اپنی بات ان کے ذریعے کہلوائے ،اپنی مفادات ان کے ذریعے حاصل کرسکیں ان کے مقابلے میں قوم دوست زیادہ اپنی قومی موقف پر انتہائی سخت گیر حیثیت سے جانے جاتے ہیں چونکہ قوم پرستی یا نیشنلزم کا تقاضایہی ہے کہ اپنی سرزمین ،اپنی قوم ،اپنی قومی وسائل سمیت ہرشئے سے ان کا ہر عمل وابستہ ہے اور ان سے جنون کی حدتک محبت کرتا ہے،تو ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی ترجیحات میں قوم دوست کم آتے ہیں ۔

جو طاقت ہیں یا جن طاقتوں کے مفادات یہاں وابستہ ہیں ان کے لئے یہاں قوم پرست طاقتوں کے بجائے اشرافیہ ،قبائلی ہیرارکی یا دیگر جڑسے محروم نمائندگی کے دعویدارزیادہ قابلِ اعتماد اورقابل قبول ہوتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے انہیں آسانی سے استعمال کرسکیں اور کٹھ پتلیوں کی جڑیں چونکہ عوام میں نہیں ہوتے ہیں یا وہ انتہائی ایک کمزور رشتے سے جڑے ہوتے ہیں اوران کے مفادات قومی مفادات کے بجائے شخصی یا کسی حد تک گروہی مفادات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں اوران کے لئے عالمی طاقتوں کی منظورِ نظر بن کر قومی مفادات پراپنی سطحی مفادات کو ترجیح دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہونا چاہئے ۔

لیکن قوم پرستوں کی جدوجہد یا ان کی زندگی اور زندگی کے محاصل کا اصل مرکز و محور قوم ،قومی سرزمین ،قومی وسائل اور قومی اقتداراعلیٰ ہوتا ہے انہیں اپنے قومی اقدار عزیز ہوتے ہیں اور وہ درحقیقت اپنے قومی اقدار کے لئے جدوجہد کے پُرخار راہوں میں لہولہاں اس لئے ہیں کہ ان کا تحفظ کیا جائے ،اس لئے قوم پرستوں کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ وہ سرزمین سے جڑ کرتمام تر سختی اور مظالموں کے باوجود ڈٹے رہتے ہیں ،تمام تر ترغیبات کے باوجود آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد مراعات و سطحی مفادات ٹھکرا کر قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں ۔ اس لئے ہم بلوچ قوم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آج عالمی سطح پر ہمیں وہ پزیرائی کا امکان کم ہے جس کا ہم یا ہماری قومی تاریخ تقاضا کرتا ہے ،ہمارے قبولیت میں وقت ضرور لگتا ہے تاوقتیکہ عالمی قوتیں اپنے مفادات کے لئے قلیل المدتی ،غیرواضح اور تضادات سے بھرپورپالیسیوں پر نظرثانی کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں وہ اصل قوتوں کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں ،کٹھ پتلی اور کمزور عوامی رشتوں کے حامل قوتوں سے سودابازی کرتے رہتے ہیں۔ ا یسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ دنیا کی طاقتوں کے چالیس ،پچاس سالوں کی تاریخ انہی پالیسیوں کے گرد گھومتی ہوئی نظرآتی ہے ۔

ہم اکثر اوقات دنیا کے ساتھ اشتراک عمل کی بات کرتے ہیں ،اور اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں سے مداخلت کی اپیل کرتے ہیں کیونکہ ہم نسل کشی کے عمل سے دوچار ہیں ۔ہمارا قومی استحصال کیا جاریا ہے ،ہمارا سیاسی ،ثقافتی استحصال کیا جارہا ہے ،ہماری سرزمین پر آبادیاتی خصوصیات میں بنیادی تبدیلی لاکر ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے تیزی سے روبہ عمل ہیں اوران تمام مظالم کے سامنے بلوچ اپنی آزادی کا جنگ لڑرہاہے ،ایسے میں ہماری بین الاقوامی برادری سے مداخلت کی اپیل ،تعاون حاصل کرنے کی کوششوں کوپروکسی قرار دینا صرف پاکستانی بیانیے کا حصہ ہے لیکن اپنی فطری حق کے لئے جاری قومی تحریک کسی عالمی یا علاقائی قوت کا پروکسی نہیں۔تاریخ شاہدہے کہ بلوچ کبھی بھی کسی طاقت کی مرسنری اورپراکسی نہیں رہے ہیں اور نہ ہم میں قومی زندگی کا احساس ختم ہوا ہے اور نہ ہی اس حد تک سیاسی بیگانگی کاشکار ہوئے ہیں کہ ہم دنیا اور طاقتوں کی فہم سے محروم ہوں کہ اپنی نظریات پر اپنے قومی سوچ کی تشکیل نہ کرسکیں ۔آج ہم بہتر پوزیشن پر قوم کی تشکیل نو کررہے ہیں،قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی اہل ہیں مگر اس امر میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنے سرزمین پرانسانیت دشمنوں کے خلاف کسی کے ساتھ اتحاد اور اشتراک کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔

ہماری خدشات دنیا کے طاقتوں کی تاریخ ہمیں یہ سوچنے پر ضرور مجبور کرے گا کہ دنیا ہمارے بارے کیا سوچ رہا ہے ؟
اس بات کے آثار نظر آنے لگے ہیں دنیا بتدریج ادراک کررہاہے کہ ان کی موجودہ پالیسیاں ان کے مفادات کے حصول میں معاون ہونے کے بجائے انہیں شدید مشکلات سے دوچار کررہے ہیں۔ اس کا ایک جھلک کردوں کے ساتھ عالمی طاقتوں کا اشتراک عمل ہے ،بلوچستان پر قبضے کی سازش میں شریک برطانیہ نصف صدی بعد اعتراف کرتا ہے ، بلوچ سیاسی لیڈر شپ عشروں سے یہی کہہ رہاہے کہ پاکستان ایک ناکام اور دہشت گرد ریاست ہے۔ پاکستان خطے میں تباہی کا سبب بنے گا،پاکستان بنیادپرست گروہوں کا ایک نرسری بن چکا ہے تو آج دنیا اس بات کا قائل ہوچکا ہے اور ہماری موقف کو بالواسطہ تسلیم کررہاہے ،لہٰذا عالمی طاقتیں اپنی اس پالیسی کوناکام سمجھ کر اس کا اعتراف کررہے ہیں اوراس بات کے آثار بھی نظر آرہے ہیں کہ دنیا اپنی اس پالیسی سے دست کش ہورہاہے اورچالیس ،پچاس سالوں تک ایک دوسرے کے خلاف سردجنگ میں مصروف طاقتیں آج مشترکہ دشمن کے خلاف اکھٹاہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی طاقتوں کی مفادات مذہبی جنونیت کے خلاف طویل المدتی محاذقائم کرنے کی راہ میں حائل رہیں مگر یہ ممکن ہے کہ مختصر مدت کے لئے صحیح، دنیا ایک محاذ قائم کرسکتا ہے ۔لہٰذا یہاں سے مظلوم قوموں کے لئے نئے امکانات کا در واہورہے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے یہ بات ہماری قومی قوت پر منحصر ہے ۔

اب سوال بحیثیت قوم ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم کس حد تک ان معاملات کا فہم و ادراک رکھتے ہیں ،ہماری قومی پالیسیاں کس نہج پر ہوں،ہم اپنی قومی قوتِ بازو پر یقین کریں یا ایک بار پھرانحصاریت کے پالیسی پر گامزن ہوں جس کا ہمیں ماضی میں تجربہ بھی حاصل ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ماضی میں بھی کوئی امداد تو حاصل نہ تھی مگر اس کی امید پر اپنی قوت تخلیق کرنے سے قاصر رہے،اس کے دیگر قومی تحریکوں میں مثالیں بھی کثرت سے ملتی ہیں۔ہم نے اکثر کہا ہے کہ اگر ہم نے صرف دوسروں پر انحصار کی توہمارا انجام سبھاش چندربوس کی طرح ہوگا، سبھاش چندر بوس کی عظمت اورہندوستان کے لئے خدمات اپنی جگہ مگر پورے ہندوستان کو متحرک کرنے میں ناکام اس لئے ہوگیا کیونکہ اس کے آخری سالوں میں سیاسی طاقت کا محور ہندوستان کے بجائے کہیں اور تھا اور یہی وجہ ان کی ناکامی کا اصل سبب بنا اگر ہم نے محض انحصارپر قناعت کیا تو ہماری انجام افغان انقلاب سے قطعی مختلف نہیں ہوگا ۔یہ باتیں ہمیں ذہن نشین کرلینے چاہیں ،گوکہ آج ہم طاقت میں کمزور ہیں ،ہماری انفرادی قوت کمزورہے ،ہم پارٹی اورپارٹی اداروں کے تعمیروتشکیل کے مرحلے سے گزررہے ہیں ،لیکن اس کے باوجود دنیا کے اس خطے میں تعمیر،ترقی اورپائیدارامن وسلامتی یااثرونفوظ برقراررکھنے کا چابی بلوچ کے ہاتھ میں ہے۔بلوچ وطن امیر ہونے کے ساتھ ساتھ اہم ترین خطوں کا سنگم ہے ۔ شرط ہماری آزاد ی ہے ،شرط ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کاہے ، بصورت دیگرانارکی کی صورت میں دنیا اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتا ہے ،چھوٹے چھوٹے گروہ خطوں کے امن سلامتی کو اتھل پتھل کرسکتے ہیں ،ہم توایک قوم ہیں ،ایک عظیم سرزمین کے مالک ہیں یہاں مسلسل جنگ اور انارکی دنیا کے بھی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ خطے کا مقدر ہماری سرزمین سے جڑی ہوئی ہے کوئی اسے نظر انداز نہیں کرسکتا ہے ۔افغانستان میں امریکہ ،نیٹوطالبان کے مقابلے میں اب تک کامیاب نہیں ہورہے ہیں نہ شام وعراق میں کامیاب ہورہے ہیں اور نہ ہی بلوچ سرزمین پر کامیاب ہونے کے امکانات ہیں اگردنیا اسی رویے کے ساتھ یہاں آنے کی کوشش کرتا ہے ۔اگرآپ آزادی کے حصول کے لئے عجلت کا شکار بن کرنوآبادیاتی طاقت یاتوسیع پسندممالک ،جن کا رویہ ،ذہنیت اور مفادات کے سامنے اپنی شرائط سرنگوں کرتے ہیں اس کامطلب قومی موت کے پروانے پر دستخط کرنا ہے،آزادی کے حصول میں عجلت اور انحصار دونوں ہمارے لئے تباہی کا سبب بنے گا بلکہ دنیا کے تمام انقلابی تحریکوں کی ناکامی کابنیادی سبب بھی یہی ہے۔

ہمیں اپنے قومی سیاسی پارٹی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ،ہمیں قومی نجات کے لئے ایک ایسے مضبوط قلعے کی ضرورت ہے جو ہماری قومی تقاضو ں کو پورا کرے اور یہ تقاضے ایک منظم انقلابی پارٹی پورا کرسکتا ہے ،آج نسل کشی سے دوچار بلوچ کا نجات اور قومی تحریک آزادی کی کامیابی ایک ایسے مضبوط سیاسی جماعت کے خیال میں پنہاں ہے جواپنے جزوں کے ساتھ ہمہ گیریت کا حامل ہو۔

یہ امرآفاقی صداقت کے حامل ہیں کہ جہاں بھی محکوم اور حاکم ،قابض اور مقبوضہ اقوام کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تواس کا منطقی انجام محکوم کی فتح پر ہوتی ہے، شرط صرف یہ ہے کہ محکوم اور غلاموں کی تحریک انقلابی معیار اور ادارتی بنیاد کے حامل ہو۔یہ صداقت دنیا کے مختلف بڑی طاقتوں کے خلاف کمزوروں کی جنگ میں بارہا ثابت ہوچکا ہے۔