کل رات آوران کے علاقے کولواہ میں پاکستانی فوجیوں نے خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی ۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کولواہ میں چار روز سے جاری فوجی آپریشن میں بے شمار خاندان محاصرے میں ہیں اور کھانے پینے سمیت زندگی کی تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ جنگی ہیلی کاپٹروں اور جیٹ جہازوں کی شیلنگ و بمباری سے کئی لوگوں کے زخمی اور شہید ہونے کا خدشہ ہے۔ اب تک پاکستانی آرمی آواران ہسپتال میں دو لاشیں لاچکا ہے۔ جن کی شناخت عبدالغنی اور عبدالغفور کے نام سے ہوئی ہے۔ آپریشن میں محصور لوگوں کو طبی سہولیات اور کھانے کے اشیاء نہ ملنے کی وجہ سے کئی لوگ زندگی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔اسی طرح دو سال پہلے جولائی دو ہزار پندرہ 2015 کو انہی علاقوں میں پاکستانی فوج کی آپریشن اور ایک مہینے تک محاصرے کی وجہ سے کئی لوگ زخمی، شہید یا لاپتہ ہوئے۔ محاصرے کے خاتمے پر ایک شخص نذیر بلوچ کی لاش برساتی نالے سے ملی۔ کئی لوگ فوج کے ہاتھوں اغوا ہوکر ابھی تک لاپتہ ہیں، یا شہید ہو کر برساتی نالوں و جنگلی جانوروں کا خوراک بن چکے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ بنگلہ دیش میں نسل کشی اور جنسی زیادتیوں کا نوٹس نہ لیکر عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کے اداروں نے پاکستان کو بلوچستان میں بنگلہ دیش کی تاریخ دہرانے کی اجازت دیدی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کل رات کولواہ میں ایک خاتون کے ساتھ پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے جنسی زیادتی کی کوشش کی ہے۔ اب بھی دنیا ستر کی دہائی کی طرح خاموش رہی تو تاریخ کا ایک ہولناک باب رقم ہوگا جو بلوچ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر مرتب ہوگا اور سب طاقتیں اس کے قصور وار ٹھہریں گے۔

ترجمان نے کہا کہ 21 اگست کو پنجگور کے علاقے گچک میں مذہبی انتہا پسندوں نے ایک اسی سالہ بزرگ خدابخش کواس لئے قتل کیاکہ وہ ایک ذکری مسلمان تھا۔ انہی انتہا پسندوں نے چند مہینے پہلے اسی علاقے میں بی این ایم کے ممبر یار جان بلوچ کو گھر میں گھس فائرنگ کرکے شہید کیا تھا۔ ان جنونیوں کا تعلق داعش سے ہے اور ان کو پاکستانی ریاست کی براہ راست حمایت حاصل ہے۔پاکستان ان کی آبیاری کرکے بلوچ قومی تحریک کے خلاف استعمال کر رہاہے۔ مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ کیچ کے مختلف علاقوں دشت ،مند،تمپ وگردو نواح میں فوجی آپریشن میں کئی گھر لوٹنے کے بعد جلائے گئے ہیں اور کئی نہتے شہریوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا۔ پاکستانی فوج جس تیزی سے بلوچوں کو اغوا و لاپتہ یا شہید کر رہاہے، اس میں پاکستانی میڈیا، مقامی انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی بھی تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔