بلوچ سیاسی کارکنان چین پاکستان اقتصادی راہداری کے خلاف متحرک

184
Hammal Haidar Baloch

11اگست کو جلا وطن بلوچ رہنماء و کارکنان کثیرارب ڈالر کی لاگت سے زیر تعمیر چین پاکستان اقتصادی رہداری سی پیک کے خلاف مظاہرے کے لیئے جرمنی کے شہر برلن میں جمع ہونگے۔

تقریب کا انعقاد بلوچ قوم پرست سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ(بی این ایم) کے یورپیئن برانچ کی جانب سے بہ عنوان ” چین کا ایک بیلٹ ایک روڈ پالیسی، بلوچستان اور خطے پر اسکے منفی اثرات”کیا جائے گا۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے خارجی سیکرٹری حمل حیدر نے کہا کہ برلن کانفرنس کا مقصد چین کے ایک بیلٹ ایک روڈ (او بی او آر) پر ایک واضح بحث کرنے کے لیئے دنیا بھر کے عالموں کی توجہ مبزول کرانا ہے کیونکہ بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کا خیال ہے کہ او بی او آر کے متعلقہ منصوبوں سے صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے اقوام بھی متاثر ہونگے۔

انہوں نے کہا، اس صورتحال میں مجھے لگتا ہے کہ یہ صحیح  وقت ہے کہ ہم ان تمام اقوام کے ساتھ ملکرکام کریں جو سی پیک اور او بی او آر کی مخالفت کرتے ہیں۔

بی این ایم نے ماہرین، تجزیہ کاروں، صحافیوں۔ معاشی ماہرین، سول سوسائیٹی کے ارکان اور پالیسی سازوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ اقتصادی کوریڈور کے اثرات پر تبادلہ خیال کریں۔ پاکستان کے وسائل میں امیر ترین صوبہ بلوچستان کے لوگ سی پیک کے مخالف ہیں جو زیادہ تر اس علاقے کے زریعے ہی چلتا ہے۔ بلوچستان میں خودمختاری کے لیئے ایک مقبول تحریک چل رہی ہے جس میں شدت آرہی ہے۔

مقامی بلوچ لوگوں کے لیئے سی پیک ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جیسے ہی سی پیک بلوچستان میں نافزہوتا ہے تو پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ وسیع پیمانے پر بلوچستان ہجرت کرینگے جو کہ بلوچستان کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کو انکی تاریخی سرزمین پر مستقل اقلیئت میں تبدیل کردیگی۔

بی این ایم جرمنی کے صدر غفار بلوچ نے اے این آئی کو بتایا کہ سی پیک کوئی اقتصادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ پاکستان چین ملکر بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ایک فوجی ڈھانچے کی تعمیر کر رہے ہیں جس کا مقصد خطے میں ان کی فوجی عظمت کو مضبوط کرنا ہے جس سے ہمیں یقین ہے کہ خطے کا استحقام کمزور ہوگا۔ اس کے علاوہ چین کے پاکستان اور اس راستے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے اثرات تیزی سے واضع ہورہے ہیں۔

چینی سہولیات کو سیکورٹی فراہم کرنے کے غرض سے پاکستان بلوچستان میں خصوصی سیکورٹی فورسز کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ فوجی آپریشنز میں بھی شدت لا رہی ہے۔ چین 2013 میں اپنے ایک بیلٹ ایک روڈ کے پالیسی کے ساتھ آیا اور گزشتہ چار سالوں میں وہ اپنے اصل منصوبوں کی خواہش واضع ظاہرکرچکا ہے۔

یہ پہل تقریباۤ 4 ٹریلیئن ڈالر یا اس سے بھی زیادہ سرمایہ پر مشتمل ہے اور مزید توسیع کے موڈ میں ہے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کاروباری اور تجارتی منافعے کی امید میں اس میں شامل ہورہے ہیں۔ چین کا مقصد بڑے پیمانے پر اقتصادی تبادلے کا مرکز بننا ہے۔

منصوبے کا مقصد اکیسویں صدی کا سلک روٹ فعال کرنا ہے جو کہ زمینی اور سمندری دونوں راستوں پر مشتمل ہے اور پہلے سے موجود ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے ڈانچے کو بھی اپگریڈ کرنا مقصود ہے۔