گزشتہ روز جرمنی کے شہر برلن میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کی جانب سے “چائنا کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اور بلوچستان پر اسکے اثرات” کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔

اس کانفرنس کا اہتمام بلوچستان نیشنل مومنٹ کے یورپین چیپٹر نے کیا تھا، اور سی پیک کے حوالے سے بات چیت کے لیئے ایک پینل تشکیل دی گئی تھی، جس میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے لیڈران کے ساتھ ساتھ ماہرِ اقتصادیات و معاشیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

کانفرنس شروع ہونے سے قبل بلوچستان نیشنل موومنٹ کی آفیشل ٹویٹر اکاونٹ پر پینلسٹ کی ایک لسٹ بھی شائع کی گئی۔

کانفرس بلوچستان کے وقت کے مطابق دن تین بجے شروع ہوئی، جو فیس بک لائیو کے زریعے براہ راست نشر ہوتی رہی۔ لائیو کانفرس کو اب تک ہزاروں افراد دیکھ ہوچکے ہیں۔

شمالی امریکہ میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے آرگنائیزر ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ” ہمارا پیغام صاف ہے، بلوچستان کی عوام پاکستان اور چین کو بلوچستان سے باہر نکلتے دیکھنا چاہتا ہے۔ بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں اور پاکستان کو کوئی حق نہیں کے وہ چین کے ساتھ کسی بھی قسم کے معائدے پر دستخط کرے جس کا تعلق بلوچستان سے ہو۔ ہم  چاہتے ہیں کہ وہ نکل جائیں۔

تقریب میں شامل ماہرِاقتصادیات، ماہر معاشیات ، صحافیوں اور پالیسی سازوں نے باری باری تقریب سے خطاب کی۔

بلوچستان نیشنل موومنٹ کے بیرون ملک میں سیکریٹری، حمل حیدر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، “چین نے اپنی ‘ون بیلٹ ون روڈ’ پالیسی کی جانب جارحیانہ رویہ اپنایا ہوا ہے اور وہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔ چین ہمیشہ سے ایک جارحیت پسند ملک رہا ہے مگر مسئلہ یہاں یہ ہے کہ یورپ نے بھی چپ سادھ رکھا ہے۔”

انھوں نے مزید کہا کہ،” اس کانفرس کے انعقاد کا مقصد یہی ہے کہ یورپ کے عوام میں سی پیک بابت آگاہی پیدا کی جائے اور یہاں بسے لوگوں کے ساتھ روابط قائم کیئے جائیں، اور مل کر چین کے جارحیانہ پالیسی کے خلاف بولا جائے”۔

بی ایس اور آزاد کے بیرون ملک کمیٹی کے آرگنائیزر نیاز بلوچ نے کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ،” بلوچستان میں ریکو ڈک اور سیندک جیسی لوٹ کھسوٹ کے منصوبے صرف مخصوص شہروں اور علاقوں کو متاثر کر رہی تھیں، مگر سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جسکے منفی اثرات پورے بلوچستان پرمرتب ہونگے۔ سی پیک کے منفی اثرات ابھی سے دکھائے دینا شروع ہوگئی ہیں، پاکستانی افواج اپنی سڑکوں کی تعمیر اور حفاظت کی خاطر آواران کے علاقے میں بستیوں کے بستیوں کو خالی کروا رہا ہے”۔

کانفرس میں انڈین مصنف اور تجریہ نگار کیپٹن الوک بنسل بھی شامل تھے، انھوں نے کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “سی پیک یا چین کی ون بیلٹ ون روڈ پالیسی صرف بلوچستان کے لیئے خطرہ نہیں بلکہ چین کے لیئے یورپی منڈیوں تک رسائی کا سب سے بڑا نقصان جرمنی کی معیشت کو ہوگا”۔

پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والی سی پیک منصوبے کی بلوچ عوام ہمیشہ سے مخالفت کرتی آئی ہے، یہ منصوبہ اگر کامیاب ہوا تو یہ پاکستان کی کامیابی ہوگی نا کے بلوچوں کی۔ بلوچ سیاسی تنظیمیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس منصوبے کے تحت ہزاروں کی تعداد میں چینی باشندے بلوچستان میں لائے جائینگے جسکی وجہ سے پہلے سے ڈگ مگاتی بلوچوں کی آبادی اقلیت بن کے رہ جائیگی۔

سی پیک منصوبے کی مخالفت نہ صرف بلوچ سیاسی تنظیمیں کرتی ہیں بلکہ مسلح تنظیمیں بھی اس منصوبے کے خلاف سرگرم ہیں۔ بلوچ مسلح تنظیمیں اس منصوبے میں شامل مشینری سے لیکر انجینئیرز پر حملے کر چکے ہیں۔ گزشتہ روز بھی بلوچستان کے علاقے خاران میں سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے انجینئیرز کی رہائش گاہ پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا جسکی زمہ داری بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ نے قبول کرلی۔

بلوچ تنظیموں کی جانب سے کاروائیوں کے بعد پاکستانی افواج بھی بلوچستان میں پہلے سے زیادہ متحرک ہوگئی ہے، جسکے نتیجے میں مزید انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رو نماء ہورہی ہیں۔