برطانیہ کو بلوچ آزادی کی حمایت کرنی چاہیے: بی این ایف

271

بلوچ نیشنل فرنٹ نے گیارہ اگست کو بلوچ تاریخ میں ایک اہم ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچوں نے برطانوی قبضہ گیریت کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو اپنی آزادی حاصل کرلی۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد بلوچستان میں باقاعدہ ریاستی انتخابات منعقد کیے گئے اور بلوچ پارلیمان تشکیل کی گئی۔ بلوچی زبان و اقدار اور مستقبل کے فیصلوں کا اختیار طویل جدوجہد کے بعد بلوچوں کے اپنے ہاتھ میں گیارہ اگست کی آزادی کی صورت میں آ گیا۔ لیکن بد قسمتی سے بلوچوں کی آزادی کو نظر انداز کرکے نومولود پاکستان نے برطانوی ایما پر 27مارچ 1948کو بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔ بلوچستان پر قبضے کے دن ہی پاکستانی فورسز نے قلات کے تاریخی شاہی مسجد کو توپخانے سے نشانہ بنایا، بلوچستان کی ریاستی نظام کو معطل کرکے تمام انتظامات پاکستانی فوج نے زبردستی اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ بی این ایف کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی ریاست شروع سے ہی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں میں ہے تاکہ بلوچوں کو تاریخ سے بے خبر رکھا جا سکے۔پاکستانی نصابی کتابوں میں اس اہم واقع کا زکر کہیں پر بھی موجود نہیں ہے کہ گیارہ اگست کو بلوچستان کی آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا۔ جس وقت بلوچ برطانوی قبضہ گیریت کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ کے آخری مراحل میں تھے اُس وقت محمد علی جناح بطور وکیل بلوچستان کی آزادی کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔بلوچستان کی آزادی کا اعلان نامہ آج بھی نیویارک ٹائمز اور دیگر عالمی جرائد کی اُس وقت کی ایڈیشنز میں موجود ہے۔

بلوچ نیشنل فرنٹ کے ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کو زبردستی پاکستان میں شامل کرنا برطانیہ کی اُس وقت کی پالیسی تھی، برطانیہ کی اُس وقت کی فیصلے کی وجہ سے بلوچ گزشتہ ستر سالوں سے سیاسی، معاشی پابندیوں کا شکار ہیں۔ جس طرح طویل جدوجہد سے بلوچوں نے برطانوی قبضہ گیروں پر ثابت کیا تھا کہ وہ کسی صورت قبضہ گیریت برداشت نہیں کریں گے، اسی طرح بلوچوں کی پاکستانی قبضے کے خلاف مسلسل جہد قبضہ گیروں کے لئے واضح پیغام ہے کہ بلوچ کمزور حالت میں بھی اپنی آزادی، اور اپنے وطن سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی موجودہ حکومت کو اُس وقت کیے گئے غلط فیصلے کے ازالے کے لئے بلوچستان کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے بلوچ مسئلے کا پرامن حل نکالنے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔

علاوہ ازیں بلوچ نیشنل فرنٹ نے گزشتہ دس دنوں کے دوران مکران، خاران، اور ڈیرہ بگٹی کے علاقوں میں کم از کم 10نہتے بلوچوں کی شہادت ،درجنوں کی گرفتاری اور نیوکاہان کے مری بلوچوں کی زمینوں پر قبضے کی پالیسی کو ریاستی دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچ تحریک کو کچلنے کے لئے تمام انسانی احترام و جنگی اصولوں کو پامال کرچکی ہے۔ نہتے لوگوں کو بلاوجہ فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کرنا اور میڈیا میں انہیں مذاحمت کار قرار دینے کے جھوٹے بیانات ریاستی فورسز کی نفسیاتی شکست کے علامات ہیں۔ گزشتہ روز خاران ، دشت، تمپ، مشکے، ڈیرہ بگٹی اور جھاؤ سے درجنوں لوگوں کو اغواء کرلیا۔ جھاؤ کے ایک پرائمری اسکول سے فورسز نے تین دن پہلے 40بچوں کو زبردستی جھاؤ میں موجود آرمی کیمپ منتقل کردیا۔ ان بچوں کو زبردستی 14اگست کی پروگراموں میں شرکت کے لئے اسکول سے فورسز نے اٹھا لیا۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز خاران میں ایک سابقہ اسسٹنٹ کمشنر کے گھر پر فورسز نے دھاوا بول کرکے تشدد کرکے اسسٹنٹ کمشنر نصیر احمد کو قتل کردیا اور خواتین و بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس طرح کی ننگی جارحیت کا مقصد بلوچستان میں خوف کی ایک فضاء قائم کرنا ہے تاکہ ریاستی قبضہ گیریت اور لوٹ مار کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھا سکے۔ کوئٹہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور ایف سی کے ونگ کمانڈر کی ملی بھگت سے نیوکاہان میں فورسز عام لوگوں کے گھروں پر قبضہ کررہے ہیں۔ قبضے کی اس پالیسی کو ڈاکٹر مالک کی حکومت نے حتمی شکل دی تھی جس پر کام تیزی سے جاری ہے ۔

بی این ایف نے عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ عوام پاکستانی قبضہ گیریت سے خاتمے کے لئے جدوجہد کا ہر ذریعہ استعمال کرکے اپنی آزادی حاصل کرکے رہیں گے